پروجیکٹ عمران کی کرچیاں

112

اللہ اللہ! کبھی عروج کا یہ عالم کہ میر کارواں تھا اور آج زوال کی یہ گھڑی کہ گرد کارواں ہوا۔ پروجیکیٹ عمران کی ٹوٹی کرچیاں چہار سو روئی کے گالوں کی طرح یہاں وہاں اڑتی پھرتی ہیں۔ پہلے تو کپتان کو سلامتی تھی پھر بات گرفتاری تک آئی اور اب نوبت آہ وزاری و بے قراری رہی۔ آفت کپتان کی جاں پر جان کے نہیں آئی بلکہ سانحہ 9 مئی کی سوچی سمجھی اور سکہ بند سازش قیامت لائی۔ اب کثرت غم اور بہتات الم کا عالم ہے اور ماتم میں ہر سو شور رقت اور ہر سمت نالہ آفت بلند ہے۔ پروجیکٹ عمران نے انگاروں کا وہ انبار لگایا کہ بجھتے بجھتے بھی کچھ نہ کچھ خاکستر کیے جاتے ہیں۔ خاور مانیکا جو چاہیں کہیں لیکن باخبر لوگ تو بہت پہلے ہی ایسی کہانیاں کہہ چکے۔ وہ اب بھی پورا سچ بولنے سے گریزاں اور فراراں ہیں کیونکہ وہ خود اس پروجیکٹ کے شریک کار اور سزا وار ٹھہرے۔ اس پروجیکٹ نے ملک وقوم کو ہلا مارنے والی کیفیت سے دوچار اور حالت سے ہمکنار کیے رکھا لیکن آج؟
ایسا ٹوٹ کے گرا ہے کہ جڑیں تک دکھائی دینے لگی ہیں
یہ وہ شجر ہے جو کبھی آندھیوں میں بھی ہلا نہ تھا

تحریک انصاف کس کے دست غیب کے ہنر کا شاہکار تھی؟یہ کوئی راز نہیں البتہ پروجیکٹ عمران کے خالقوں اور انجینئروں نے چابی اتنی بھر دی تھی کہ کھلونا دیر تک تماشا کیا کیے۔ سامریوں اور جادوگروں کی کہانیاں تو کسی نہ کسی اوٹ سے چھن چھن کر سامنے آرہی ہیں۔ اب یہ بھی بھید کھلا کہ خاندانی وقار اور رشتوں کا اعتبار بھی پامال ہوا۔

پاکستانی سیاسی تاریخ میں سویلین وزرائے اعظموں کے خلاف منظم مہم اور کرپشن کے اسطورے اول روز سے ہی تراشے جانے لگے تھے۔ میثاق جمہوریت کے بعد نواز شریف البتہ خصوصی طور پر نشانہ بنائے گئے۔ پروجیکٹ عمران کے معماروں نے منتخب جمہوری وزیر اعظم کو کرپشن میں لتھڑا ہوا اور گناہوں میں گھرا باور کرا کر بے لباس کیا۔ سلیمانی ٹوپیاں پہننے والوں نے کپتان کی نام نہاد اور جھوٹی عظمت کا ایک بت تخلیق کیا۔ آئی ایس پی آر کے راتب پر پلنے والے کئی صحافیوں نے اس پروجیکٹ میں استطاعت سے بڑھ کر حصہ ڈالا۔ قصہ گو کالم نویسوں اور چرب زبان اینکروں نے عمران خان کے گرد سچائی و بہادری اور قیادت و بصیرت کے تنبو تان دئیے۔ خوش فہمیوں اور گپ بازیوں سے پروجیکٹ کے بچھڑے میں ایک مسیحا کی روح پھونکنے کی لاحاصل کوششیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔پریس کے پروپیگنڈے سے عوام کے حق حکمرانی کو چھیننے کی کہانی بھی ہمارے سامنے کی حقیقت ہے لیکن اس جھوٹی اور جعلی جنگ میں سماج تک کی بھی چولیں ہلا دی گئیں۔ عمران خان نے نسل نو کو ایسا لڑاکا، جھگڑالو اور بدتمیز بنایا کہ پناہ بخدا۔ نواز شریف کے تیسرے عہد میں کوئی دن ایسا نہ گزرا جب کپتان نے منہ زور طاقتوں کی داشتہ بن کر عوامی وزیر اعظم پر الزام و دشنام کے تیر ترازو نہ کیے ہوں۔ کھردری اور بازاری زبان میں مخالف سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو کہا۔ چور چور کی گردان اور ڈاکو ڈاکو کی مالا جپنا کپتان کا محبوب مشغلہ تھا۔ روز روز کی پھڈا بازی، کھینچا تانی اور انتشاری سیاست سے ترقی وارتقا کا راستہ کھوٹا کیا۔آج مولانا فضل الرحمان یہی بات با اسالیب مختلف کہتے سنے جاتے ہیں۔

2013 کے بعد احتجاجی ریلیاں، جلسے و جلوس، الزام و دشنام، قصے کہانیاں، دھرنے، لانگ مارچ اور لاک ڈاؤن…… اس ہنگامہ ہاؤ ہو میں اگر نواز شریف بھی کپتان کی طرح کوئی چال چل دیتے تو ہم آج کہاں کھڑے ہوتے؟ نواز شریف خوب سمجھتے ہیں کہ سیاسی زندگی تو بس وہی جو سینے میں دل کھلا اور چہرے پر چمکتی پیشانی رکھتی ہو۔ کپتان ایسے بجھے ہوئے دل اور سوکھے ہوئے چہرے احتجاج وانتشار سے اوپر اٹھ کر بھلا جی بھی کیسے سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی اگر جن اور جادوگر حکام کو جم کر کام کرنے دیتے تو شاید آج پی پی کا نامہ اعمال کچھ بہتر ہوتا۔ لیاقت علی خاں سے نواز شریف تک…… سبھی حکومتوں کو کسی نہ کسی پروجیکٹ کی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا رہا۔ دوسری انہونی اور کالی محرومی مزید ظلم عظیم تھا کہ سیاستدانوں کو انتقال اقتدار نہ ہوا۔ شراکت اقتدار سے ہی انہوں نے کام چلایا اور یہ نصیبوں جلے پھر بھی افتاں و خیزاں اور کبھی کشاں کشاں رواں دواں رہے۔ اہل زبان کی زباں میں یوں کہیے کہ سیاستدانوں کے ہاں پھر بھی رونقیں روز افزوں رہیں اور پروجیکٹ والوں کی رعنائی بھی زار و زبوں رہی۔ کوئی محروم رہ کر بھی شاد کام ہوا اور کوئی شاد کام ہو کر بھی مجرم بن گیا۔ اپنے اپنے نصیب اور کرتوت کی بات ہے۔ابوالکلام آزاد نے ایک مکتوب میں کیا خوبصوت بات کہی تھی کہ بادہ کامرانی کے تعاقب میں ہمیشہ خمار ناکامی لگا رہا اور خندہ بہار کے پیچھے ہمیشہ گریہ خزاں کا نالہ بپا رہا۔

پروجیکٹ عمران کی بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ اصل میں یہ پروجیکٹ اک چشم مجبور کا ارماں تھا۔ کپتان کی آنکھوں پر وزارت عظمیٰ کی پٹی بندھی تھی جو حقائق کا سیدھا نہیں سادہ ادراک رکھتی تھی۔ ویسے اس پروجیکٹ کا کھلونا الزام لگانے،گالیاں دینے اور کہانیاں سنانے میں ماہر اور منجھا ہوا تھا۔دنیا میں اس سے زیادہ آسان کام کوئی نہ ہوا کہ الزام لگاتے لگاتے مر جائیے۔اور اس سے مشکل کام بھی کوئی نہ ہوا کہ سینہ چھلنی کراتے کراتے جیتے جائیے اور چوتھی بار پھر میدان میں اتر آئیے۔ کپتان تو موقع محل کی تاک میں رہتے تھے کہ کہ نواز شریف سے مخاطبت کے لیے تقریب سخن ہاتھ آئے اور وہ بولیں اور بے تکان بولیں۔ پروجیکٹ والا کھلونا نواز شریف کا دامن پکڑنے کے لیے ہر بار اپنا گریباں چاک کرتا رہا۔ وہ ہوا کے گھوڑے پر بیٹھے تھے اور باگیں بھی ڈھیلی چھوڑ رکھی تھیں۔ جب وہ وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر سریرآرا ہوئے تو پروجیکٹ کے معمار ان کی پشت پر کھڑے تھے اور کپتان بھی پوری طاقت سے الزام لگاتے، گریباں چاک کرتے اور سینہ کوبی کرتے رہے۔ ان کے ہیجان، انتشار اور فساد کو تب بھی قرار نہ آیا جب شیخ رشید ایسے مسخرے کی سنگت و قربت انہیں نصیب ہوئی۔ آج دونوں کی طبیعت کاسکون اکھڑ گیا ہے اور دل کاچین روٹھ گیا ہے۔ گاہ گاہ جذبات کی پکڑ اتنی شدید اور جکڑ اتنی سنگین ہوتی ہے کہ حقیقت کا تازیانہ بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا۔ چلئے چھوڑیے کہ اب پروجیکٹ عمران کی کہانی تمام ہوئی اگرچہ خاکیوں کے ایسے پروجیکٹ کہاں تمام ہوتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.