سہیل وڑائچ صاحب کے کالم ”دیر آید غلط آید“ کا نوے فی صد سے زائد حصہ ذاتی حملوں، طعن و تشنیع اور کردار کشی پہ مشتمل ہے۔ اُن کے کالم ”تُسی اُچّے اسی قصوری“ میں بھی مجھے بے ڈھب اور نا تراشیدہ القابات و خطابات سے نوازا گیا تھا۔ میں نے اُس وقت بھی ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا تھا، اب بھی نہیں دے رہا۔ میں جانتا ہوں کہ دلیل کے فقدان سے ذہنی خلجان اور جذباتی ہیجان جنم لیتا ہے اور اس آشوب میں مبتلا ہونے والے کا ہاتھ براہِ راست مدّمقابل کے گریبان پر پڑتا ہے۔
کالم کی ابتدا ہی میں وڑائچ صاحب لکھتے ہیں ”ہم عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کے اہم ترین سیاسی لیڈر نوازشریف کو مشورے نہ دیں بلکہ چابی برداروں سے رجوع کریں۔۔۔ آئینی طور پر جس مقتدرہ کا سیاست میں کوئی کردار ہی نہیں، سیاسی معاملات میں اُس سے رجوع کریں؟“ نقطہ نظر کی بنیادی بلکہ بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9 مئی کی منصوبہ بند سازش کو ”سیاسی معاملہ“ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ کسی بھی پہلو سے سیاسی معاملہ نہیں۔ جب تک یہ مغالطہ دور نہیں ہو جاتا بحث لا حاصل رہے گی۔
اسی مغالطے کی رو میں بہتے ہوئے اصرار کیا جا رہا ہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کی ”غلطی“ سے بھی درگذر کر لیا جائے۔ موازنے کے طور پر نواز شریف کی گوجرانوالہ جلسے میں کی گئی تقریر اور آصف زرداری کے ایک جملے ”تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، ہم نے یہیں رہنا ہے“ کا حوالہ دیا گیا۔ ایک اور مثال مسلم لیگ (ن) کے سپریم کورٹ پر حملے کی دی گئی۔ میں ان سب کا سیر حاصل جواب دے چکا ہوں لیکن میرے کسی جواب کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ”مُبلّغین مفاہمت“ مصر ہیں کہ 9 مئی پر مٹی ڈالنے اور معافی تلافی کی ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے اس ضمن میں عرض کیا تھا کہ عمران خان کی سپاہ نے نہ تو رائیونڈ پر حملہ کیا ہے نہ ہی شریف فیملی کے خاندانی قبرستان کی بے حُرمتی کی ہے۔ بقول خان صاحب، اُن پر ایک سو سے زائد مقدمات دائر ہیں، کوئی ایک بھی نواز شریف نے درج نہیں کرایا۔ خود عمران خان، اپنی افتاد کا ذمہ دار نوازشریف کو نہیں ”راولپنڈی“ کو ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے مختلف عدالتوں میں متعدد پٹیشنز دائر کر رکھی ہیں۔ کسی ایک میں بھی نوازشریف کو فریق نہیں بنایا۔ وہ جانتے ہیں کہ لڑائی کس سے ہے اور معاف کر دینے کی صلاحیت کون رکھتا ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ عمران خان نے اگر معافی تلافی کا معاملہ کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ پر پڑا قفل کھولنا ہے تو اس کی چابی نواز شریف نہیں، خود عمران کی جیب میں ہے اور اگر فوج نے خود پر ہونے والے حملوں کو محض ایک ”سیاسی معاملہ“ سمجھتے ہوئے کوئی فراخ دلانہ فیصلہ کرنا ہے تو اس کی چابی بھی، نواز شریف نہیں، خاکی وردی والوں کی جیب میں ہے جن کے سربراہ نے دو روز قبل ہی کہا ہے ”کسی گروہ کی مسلح کارروائی ناقابلِ قبول ہے“۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک حالیہ فیصلے میں 9 مئی کے واقعات کو متشدّدانہ کارروائیاں قرار دیا ہے جنہیں اپنے مقاصد کے حصول کا ”جائز“ طریقہ سمجھ لیا گیا۔
دلیل کا ایک اور تازہ ترین ”جواہر پارہ“ ملاحظہ فرمائیں۔ ”چابی برداروں سے نواز شریف کا بات کرنا بنتا ہے۔ اگر وہ اُن سے باقی باتیں طے کر کے آئے ہیں تو یہ بات (عمران کی گلوخلاصی) بھی انہی کا فرض ہے“۔
نواز، عمران تعلقات کی کہانی میں خان صاحب کی ”گرم جوشی“ کا کسے اندازہ نہیں؟ 2013 کی انتخابی مہم میں عمران خان سٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو نوازشریف نے جلسہئِ عام میں اُن کی صحت یابی کی دعا کی۔ دو دِن کے لیے انتخابی مہم معطّل کر دی۔ ہسپتال میں اُن کی عیادت کو گئے۔ وزیراعظم بنے تو تلخیاں کم کرنے کے لیے بنی گالہ چلے گئے۔ جواب میں انہیں چور ڈاکو کی گردان، اپنے دفتر اور رہائش گاہ پر فدائین کی گالیوں اور الزام و دشنام کے سوا کچھ نہ ملا۔ نفرتوں کی آگ مسجد نبویؐ کی مشکبو فضاؤں تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 2004 میں میاں محمد شریف کا انتقال ہوا تو آمر وقت، پرویز مشرف نے بھی نواز اور شہباز کو فون کر کے تعزیت کی۔ خان صاحب کو توفیق نہ ہوئی۔ نواز شریف کی والدہ اور اہلیہ کا انتقال ہوا تو عمران وزیر اعظم تھے۔ گھر جانا تو دور فون پر بھی تعزیت نہ کی۔ ایک رسمی بیان کافی سمجھا۔ آج اگر نواز شریف کے سینے میں فرشتے کا دِل بھی ہو تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ سینہ سپر ہو کر فوج کے سامنے کھڑا ہو جائے اور 9 مئی کی خوں رنگ شام کے دفاع میں تلوار سونت لے؟ کیا 9 مئی کوئی روایتی قبائلی جھگڑا تھا؟ کیا یہ گاؤں کی کوئی ”سوکنانہ“ لڑائی تھی کہ کوئی بڑا بوڑھا پنچایت لگا کر فتویٰ جاری کر دے؟ ایک بار اس مکروہ سازش پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی جتھہ، کوئی بھی گروہ، کوئی بھی بے مہار مجمع، دفاعِ وطن کی علامتوں پہ چڑھ دوڑے گا اور پھر ”سیاسی جماعت“ کی بُکّل مار کر، تسبیح تھامے ”مٹی ڈالو“ کا ورد کرنے لگے گا۔ اگر جنرل اکبر خان سازش سے لے کر جنرل ظہیر الاسلام عباسی سازش تک تمام کرداروں کو اپنے کیے کی سزا ملی تو کیا ”زمان پارک سازش“ پر صرف اس لیے مٹی ڈال دی جائے کہ اس کے مرکزی کردار نے وردی نہیں پہن رکھی؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئین و قانون کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملزمان کو کڑی سزائیں سنا کر نمونہئِ عبرت بنا دیا جائے۔ ہر شہری کے آئینی حقوق ہیں۔ اُن کی پاسداری ہونی چاہیے۔ زیادتی یا نا انصافی کا ہلکا سا شائبہ بھی بے لاگ انصاف کے تاثر کو مجروح کر دیتا ہے۔
بنیادی بحث سے تعلق رکھنے والے اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔
(1) کیا 9 مئی کی شام جی ایچ کیو، کوئٹہ چھاؤنی، کور کمانڈر ہاؤس، عسکری پلازا، میانوالی ائیر بیس، قلعہ بالا حصار، پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان، چکدرہ چھاؤنی اور شہداء کی یادگاروں پر حملے سوچی سمجھی منصوبہ بند سازش نہیں تھی؟ اگر تھی تو دفاعی تنصیبات پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ اور کیا اسے محض ”سیاسی معاملہ“ قرار دے کر جمہوری رواداری کی قبا پہنا دی جائے؟
(2) 9 مئی سے رشتہ و تعلق کے جرم میں چار جرنیلوں، سات بریگیڈئیرز سمیت اٹھارہ اعلیٰ افسران کو سزا کیا کہہ رہی ہے؟ عمران خان کی سازش پر ”مٹی ڈالنے“ والے اِن ”مظلوم“ افسران کے حق میں آواز کیوں نہیں اُٹھا رہے؟
(3) کیا 9 مئی جیسے سازشی حملوں سے صرف اس لیے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والی ”ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت“ ہے؟
(4) اگر معاملہ سازشی حملہ آوروں اور حملے کا نشانہ بننے والوں کے درمیان ہے تو نواز شریف کیا کر سکتا ہے اور اُسے نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟
ان سوالات کے بے لاگ اور متعّین جوابات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اصل موضوع سے کنّی کترا کر مجھ پر ذاتی حملوں سے زمینی حقیقتیں تبدیل نہیں ہو سکتیں۔ میرے نامہئِ سیاہ کی تیرگی کسی اور کی زُلفوں کا حُسن کیسے بن سکتی ہے؟ میرے گناہوں میں لت پت ہونے اور 9 مئی کی ”زمان پارک سازش“ کے درمیان کیا تعلق ہے؟ مجھے اس بات کا احساس بھی ہے کہ مالی دباؤ کا شکار اخبارات، مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ ادارتی صفحے کی تنگ دامانی کا تقاضا ہے کہ بات کو موضوع کے مدار سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ یہ ’کالماتی مکالمہ‘ ایک سنجیدہ بحث کے بجائے ذاتیات کا دھوبی گھاٹ نہ بنایا جائے۔ قلم کو حرف و بیاں کے مہذب قرینوں کی حدوں میں رکھا جائے۔ اسے مدمقابل کے چہرے پر سیاہی پھینکنے والی پچکاری نہ بنایا جائے۔
تبصرے بند ہیں.