کھیلوں سے تو سیاست کا خاتمہ کر دیں!

66

اس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کے پہلے مرحلے میں ہی باہر ہونے کے بعد وطن واپس پہنچ چکی ہے (بہت سے کھلاڑی، دوسرے ممالک روانہ ہو چکے ہیں)۔ گزشتہ 23 سال میں چھ ورلڈ ہوئے ہیں مگر قومی ٹیم محض ایک کے سیمی فائنل میں جا سکی ہے، باقی تمام ورلڈ کپ میں ابتدائی مراحل میں ہی گھر کو لوٹ آتی ہے۔ اس وقت کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سی باتیں ہو رہی ہیں، کہ کرکٹرز پروفیشنل ہو گئے ہیں، ان کا دھیان کھیلنے کی طرف کم اور کمائی کی طرف زیادہ لگا ہوا ہے، پھر اس ورلڈ کپ میں کئی سکینڈلز بھی سامنے آئے ہیں جس سے ورلڈ کپ کے درمیان کرکٹ ٹیم کا مورال انتہائی ڈاؤن نظر آیا۔ اور اس سے دنیا بھر میں ہماری بدنامی بھی ہوئی۔ خیر اگر ہم بات کریں مذکورہ سکینڈل کا تو یہ معاملہ کہاں سے شروع ہوا تو اس حوالے سے جو رپورٹس آ رہی ہیں وہ پاک ساؤتھ افریقہ میچ کے بعد کی ہیں، ان رپورٹس کے مطابق سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کرکٹ ٹیم کا ایک کھلاڑی پلیئرز مینجمنٹ کی ایک کمپنی یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں، جس کو ان کا ایک ایجنٹ چلاتا ہے۔ ایجنٹ کے ساتھ انضمام الحق اور اہم کھلاڑیوں کی شراکت کے معاملہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سنجیدگی سے سارے معاملہ کی تحقیقات کرنے پر مجبور کر دیا، اگر اس حوالے سے تحقیق میں جائیں تو ایک ہفتہ قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر اور سابق کپتان نضمام الحق اپنے اور پلیئرز کے ایجنٹ طلحہ رحمانی کی کمپنی میں خود بھی شیئرہولڈر ہیں۔ ”یازو“ انٹرنیشنل لمیٹڈ کی دستاویز میں کمپنی کا برطانوی رجسٹریشن نمبر 1306 سے شروع ہوتا ہے اور اس میں تینوں مالکان کا یکساں ایڈریس کولچیسٹر، انگلینڈ لکھا گیا ہے۔ کمپنی میں تینوں مالکان کے شیئرز 25 فیصد سے زائد ہیں۔ یازو کمپنی 2020 سے ڈیکلیئرڈ ہے، مفادات کے ٹکراؤ کے متعلق سوال کے جواب میں کمپنی کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کوویڈ وبا پھیلنے کے دنوں میں 2020 میں بنی تھی اور اس وقت انضمام الحق چیف سلیکٹر نہیں تھے۔ بہرحال یہ ہماری ”روایات“ رہی ہیں کہ ہم بڑے ایونٹ سے پہلے یا بعد میں ہمیشہ تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی یہ تنازع کرکٹ بورڈ سے ہوتا ہے، کبھی کھلاڑیوں کا آپس میں ہوتا ہے اور کبھی جواریوں کے رابطے ہمارے ٹیم ممبرز کے ساتھ نکل آتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ ورلڈکپ سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم، محمد رضوان اور کئی دوسرے کھلاڑیوں کا کرکٹ بورڈ سے سینٹرل کنٹریکٹ کے حوالے سے تنازع چل رہا تھا اور انضمام الحق نے کھلاڑیوں سے مذاکرات کر کے انہیں تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی کی آمدنی سے بھی شیئر دلایا جبکہ تنخواہوں میں بھی 202 فیصد تک اضافہ کرایا تھا۔ اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اس وقت بھی بعض کھلاڑیوں اور چیف سلیکٹر کے مفادات یازو انٹرنیشنل کمپنی کی پارٹنر شپ کے حوالے سے مشترک تھے۔ مزید یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان بھی اس کمپنی کے مالکان میں شامل ہیں۔ اب رہی کرکٹ بورڈ کی بات تو اس میں بجائے اس کے کہ اس کے کرتا دھرتا اور اعلیٰ عہدیداران کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی ہوں یا کرکٹ ایکسپرٹ ہوں، بلکہ ان سب سے ہٹ کر سیاسی سربراہان کو لگا دیا جاتا ہے، یعنی کبھی نجم سیٹھی (ن لیگ) تو کبھی ذکا اشرف (پیپلزپارٹی) جیسے لوگوں کو یہ سیٹیں دی جاتی ہے۔ اور پھر ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ میرٹ پر فیصلے کیے جائیں؟ اس معاملے پر بھی ذکا اشرف صاحب سے خاصی لے دے ہو رہی ہے تبھی انہوں نے چیف سلیکٹر انضمام سے زبردستی استعفیٰ لیا ہے۔ بعد ازاں چیئرمین پی سی بی نے ایک انٹرویو میں اس معاملے کو Conflict of Interest قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف سلیکٹر نے سات آٹھ کھلاڑی قابو کیے ہوئے تھے، سلیکشن بھی وہی کرا رہے تھے۔ یعنی پہلے چیف سلیکٹر کو بری قرار دے دیا پھر ان کے خلاف چارج شیٹ بنا دی۔ جبکہ دوسری جانب چیف سلیکٹر نے اس معاملے پر استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکراؤ پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ چیف سلیکٹر کلیئر ہونے کے بعد واپس اپنے عہدے پر براجمان ہو سکتے ہیں تب تک بورڈ نیا چیف سلیکٹر نہیں لگائے گا۔ چیف سلیکٹر کا کہنا تھا کہ اگر مجھ پر سوال اٹھے گا تو بہتر ہے کہ میں سائیڈ پر ہو جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جنہوں نے باتیں کی ہیں انہیں ثبوت بھی دینے چاہئیں۔ وغیرہ بہرکیف بات کرکٹ ورلڈ کپ کی ہو، ہاکی ایونٹس کی یا حالیہ ایشین گیمز میں پرفارمنس کی تو قارئین! پاکستان کی صورتحال خاصی گمبھیر ہوتی جا رہی ہے، تمام کھیل زوال کا شکار ہو رہے ہیں، وجہ صرف اور صرف سفارشی کلچر کو فروغ دینا اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن کا ہونا ہے، آپ قومی کھیل ہاکی کو دیکھ لیں، اس ایشین گیمز کے سیمی فائنل تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ حالانکہ ہاکی کے میدان میں ایشین گیمز میں ہم نے 8 مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم تین بار کے ہاکی اولمپک چیمپئن رہے، 4 مرتبہ ہاکی ورلڈ کپ جیتے، تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی جیتے اور تین مرتبہ ہی اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ جیتے۔ لیکن کوئی یہ سوچے کہ یہ ٹیم ایشیا کی چند ایک ٹیموں میں سے بھی آخری نمبروں میں رہی تو یہ باعث شرم بات ہے۔ لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کھیلوں کو سیاست سے دور رکھیں، نوجوانوں کو سہولیات دیں، اس وقت تو نوجوانوں کے لیے گراؤنڈز ہی موجود نہیں ہیں آپ لاہور ہی کو دیکھ لیں، ایک وقت تھا جب اس شہر میں 70سے زائد گراؤنڈز ہوا کرتی تھیں، لیکن اب وہ تمام قبضہ گروپوں اور حکومتوں کی طرف سے ختم کر دی گئی ہیں، حتیٰ کہ یادگار کے ساتھ درجن بھر گراؤنڈز ہوا کرتی تھیں، یعنی 4 ہاکی کلب تھے، اور 6کرکٹ کلب موجود تھے، جہاں ہم ہر شام پریکٹس کیا کرتے تھے، لیکن وہ بھی ”گریٹر اقبال پارک“ کی نذر ہو گئی ہیں۔ آپ اسے چھوڑیں، پنجاب یونیورسٹی کی گراؤنڈز کو دیکھ لیں، وہاں سے بھی کرکٹ گراؤنڈز ختم کر کے یا تو اُنہیں مختلف منصوبوں کی نذر کیا جا رہا ہے، یا اُنہیں شادی ہال میں بدلا جا رہا ہے۔ پھر گورنمنٹ کالج کی گراؤنڈز میٹرو منصوبے نے تباہ کر دیں۔ سنٹرل ماڈل سکول کی گراؤنڈز بھی بہت کارآمد اور اچھی تھیں، مگر وہاں عمارتیں بن گئی ہیں۔ الغرض یہی حال دوسرے شہروں کا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں جو بھی ٹیلنٹ نکلتا ہے وہ یا تو چھوٹے شہروں سے نکلتا ہے، یا کسی ڈیپارٹمنٹ سے آتا ہے۔ جیسے ارشد ندیم اور طلحہ طالب واپڈا کے ملازم ہیں۔ یعنی یہ لوگ اپنے بل بوتے پر آگے آتے ہیں۔ قومیں اپنی کھیلوں اور کلچر کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، اس لیے ہمیں اپنی پہچان کھونے سے بچانی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اکا دکا کھیلوں میں بھی خوار ہو جائیں اور پھر ہمارا نام بھی باقی نہ رہے!

تبصرے بند ہیں.