حکیم الامت، شاعرِ مشرق حضرت اقبالؒ کی شخصیت، شاعری اور فکر و فلسفے کے بارے میں کچھ کہنا ایسے ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا اس لیے کہ اس بارے میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے اور اتنا کچھ لکھا جاتا رہے گا کہ اس کو نقد و نظر میں پرکھنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ اقبال بلا شبہ حکیم الامت، فلسفی، شاعر اور دانائے راز تھے اُن کی شاعری اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے ہی بے مثال نہیں بلکہ باطنی حسن، معنی اور مطالب کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ اس میں جو خوبصورت تراکیب استعمال ہوئی ہیں، اس میں الفاظ کی جو بندش ہے، معنی کی جو وسعت ہے، تاریخ اور تہذیب کا جو شعور ہے، خودی کی جو ترجمانی ہے، فکر و فلسفے کی جو گہرائی ہے، عقل و شعور کی جو فرمانروائی ہے، خیالات کی جو بلندی ہے، عشق حقیقی اور عشقِ رسولﷺ کی جو خوشبو ہے، قومِ رسولِ ہاشمیﷺ اور تہذیب حجازی کا جو تذکرہ ہے، ماضی کی جو منظر کشی ہے، حال کی جو اُمید افزائی ہے اور مستقبل کے جو سہانے خواب ہیں وہ سب کچھ اتنا عدیم النظیر ہے کہ اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ میرے نزدیک اقبالؒ کی ہستی ملتِ اسلامیہ بالخصوص برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے اللہ کریم کا احسانِ عظیم تھا۔
اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے نصفِ اول میں جب ملتِ اسلامیہ زوال و انحطاط کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور اُس پر نکبت اور ادبار کے بادل چھائے ہوئے تھے اور جنوبی ایشیا کے مسلمان غلامی کے شب و روز اس انداز سے بسر کر رہے تھے کہ اُن کے قومی وجود کی بقا کو بھی حقیقی خطرات لاحق ہو چکے تھے تو ان کٹھن اور مشکل حالات میں اقبالؒ نے اپنے فکر و فلسفے اور شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام، عشق رسولﷺ، خودی، عظمتِ انسانیت، مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ اور عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کا پیغام دیا۔ ملتِ اسلامیہ نے اقبالؒکے اس پیغام سے یقینا اثر قبول کیا، اُسے ولولہ تازہ ملا اور اُس نے اپنی غلامی کو آزادی اور نکبت و ادبار کو سربلندی میں تبدیل کیا۔ اقبال نے کس طرح ملتِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور اس میں آزادی اور اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کی تڑپ اور ولولہ پیدا کیا اس کا اظہار اُن کی کئی نظموں اور زبانِ زدِ خاص و عام اشعار میں ہوتا ہے۔
اقبالؒ کے اردو مجموعہ ہائے کلام بانگِ درا، بالِ
جبریل اور ضرب ِ کلیم میں کتنی ہی ایسی نظمیں اور اشعار موجود ہیں جن سے اقبال کے فکر و فلسفے، ملتِ اسلامیہ کے لیے فکر مندی اور درد مندی کے ساتھ اُمید افزائی اور سب سے بڑھ کر ہادی برحق حضرت محمدﷺ سے ان کی سچی محبت اور عشق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں وہ صفات پیدا ہو جائیں جو مرد مومن کا خاصا ہیں۔ جن سے وہ خودی، خود شناسی، حریت فکری، بلند نگاہی، خود داری اور آزادی کی صفات سے متصف ہی نہ ہوں بلکہ ان کے اعمال و افعال سے صحابہ کرامؓ کی سیرت کی پیروی اور اسلام کی سچی تعلیمات اور عشق رسول ؐ کا عکس بھی جھلک رہا ہو۔ نبی اکرمﷺ کے افضل البشر ہونے کے مقام و مرتبے اور فضیلت کو بیان کرنے اور آپﷺ سے اپنی بے پناہ عقیدت و محبت اور لگاؤ کا اظہار کرنے کے لیے اقبال ؒ نے جس طرح کے اشعار کہے ہیں اور ان میں جس طرح کی تراکیب، قرآنی مقطعات، تشبیہات، استعارے اور الفاظ استعمال کیے ہیں وہ بے مثال ہی نہیں بلکہ انتہائی خوبصورت، پُرعظمت اور جاہ و جلال کے حامل ہیں اقبال کی اردو اور فارسی شاعری دونوں میں جا بجا ایسے اشعار ملتے ہیں جن کی معنی آفرینی، نفسِ مضمون کی وسعت، جاہ و جلال اور ان میں پنہاں عشق و محبت کے پاکیزہ جذبات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ہی ان اشعار کا مقابلہ کیا جا سکے۔
وہ دانائے سُبل، ختم الرُسل، مولائے کُلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیئ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہٰ
اقبال ؒ کے نزدیک مسلمانوں کے گزرے ہوئے زمانے یا ان کی عظمتِ رفتہ کی یاد جہاں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں زوال و انحطاط سے نجات پانے کا جذبہ عطا کرتی ہے وہاں انہیں اس میں مسلمانوں کے آنے والے دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے درخشاں مستقبل کی تصویر کشی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
اقبال ؒ نے آج سے تقریباً ایک صدی قبل جب پوری دنیا میں مسلمان مغربی اقوام کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے ایسی نظمیں اور اشعار کہے جن میں مسلمانوں کو غیروں کی غلامی سے نجات پانے کے ساتھ آزادی اور اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کی نوید بھی سُنائی۔ ان کے اولین اردو مجموعہ کلام ”بانگِ درا“ میں شامل ان کی طویل اور معرکۃ الآرا نظم طلوعِ اسلام اس ضمن میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی نظم کے پہلے دو اشعار میں ہی ملت اسلامیہ کے لیے امید افزائی کا پیغام جھلکتا نظر آتاہے۔
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی
عروقِ مردہئ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
ایسی نظم میں اقبالؒ نے مسلمانوں کو برّاعظم ایشیا کی پاسبانی کا مژدہ سنایا تھا۔
یہ نکتہ سرگزشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تُو ہے
اقبالؒ کی اس نظم کے اگلے پینتیس چالیس برس میں بلا شُبہ مسلمانوں کو آزاد مملکتوں کی صورت میں ایشیا کی پاسبانی مل گئی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس پاسبانی کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کا انتہائی المناک اور تکلیف دہ مظاہرہ ارضِ فلسطین میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جہاں غزہ لہو لہان ہے۔
تبصرے بند ہیں.