میں صوبہ جنوبی پنجاب المعروف سرائیکی صوبہ پچاسویں سالگرہ پر جھکتی جاتی کمر پر کانپتے ہاتھ رکھے اپنی داستان سناتا ہوں۔ ایسی داستان جس کے سبھی کردار زندہ ہیں اور کچھ شرمندہ بھی۔ میرے وجود پر خود اعتمادی کے خوابوں کی بکھر چکی تعبیروں کی دھول جمی ہے اور لفظ مفہوم سے عاری ہیں۔ میں اپنے جنم کے پس منظر کی کہانی سنا کر آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا اور ویسے بھی اب کہانی مر چکی ہے۔ میرے وسائل پر جن وارثوں کا حق تھا، جن کے بدن میری زرخیز مٹی سے مہکتے تھے، وہ خود بھی اپنے خوابوں سمیت نیلام ہو چکے ہیں۔ مجھے میری اولاد نے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا، اپنی ڈھال بنا کر مجھے بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔ میرے زرخیز وجود کو بنجر کرنے کے لیے میرے بیٹوں نے میری ہریالی نوچ ڈالی، میرے خزانوں کو سیاسی مفادات کی آڑھت میں سودے کی سولی پر مشتہر کیا گیا۔ میرے وجود پر پلنے والے غریب بیٹے تعلیم اور علاج کو ترستے رہے۔ میں جو دولت اگلتا رہا وہ روز اوّل سے کہیں اور خرچ ہوتی رہی۔ میرے وسائل کی بدولت مالا مال ہونے والے مجھے جاہل ہونے کی گالی دیتے رہے اور میں گنگ رہا کہ مصلحت کی میخیں میری زبان پر گڑھی تھیں۔ میرے نام پر کئی سماجی یتیم اقتدار میں آئے اور پھر اپنی ولدیت کے خانے میں لکھے میرے نام کو بلیڈ سے یوں کھرچ دیا گیا کہ نشان تک نہ رہا۔ میرے حصے کے بجٹ کو میری آنکھوں کے سامنے معاشرتی عیاشی میں اڑایا گیا مگر میں خاموش رہا۔ پرانی کہانیوں کو فراموش بھی کر دیا جائے تو بھی میرے نوحے کم نہیں ہونگے۔ جنرل پرویز مشرف کے ترجمان اور اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات کا تعلق بھی میری مٹی سے تھا مگر جب جب میری علیحدہ شناخت کی بات آگے بڑھی تب تب انہوں نے صوبہ بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ کر کے میرے سفر کو کھوٹا کر دیا۔ کوئی تو تھا جو اس عام سی آواز میں طاقت کے راگ ڈالتا تھا اور بہاولپور صوبے کی صدا بہت دور تک سنی جاتی تھی۔ بہاولپور صوبہ تو کیا بحال ہونا تھا مگر میرے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ یہی کام آج کل طاقت کے راگ درباری کو طارق بشیر چیمہ کی زبان میں ڈال کر لیا جا رہا ہے۔ میرے چولستان کو اپنے خون سے سیراب کرنے والے ہاریوں سے چھین کر باہر کے بیوپاریوں کی کسی نامعلوم کارکردگی کے انعام کے طور پر نچھاور کر دیا گیا۔ میں چپ چاپ ستم سہتا رہا کہ میرے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے عوض بک چکے تھے۔
ابھی چند سال پہلے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے نام پر کچھ ستمگر اکٹھے ہوئے اور مجھے حوصلہ بخشا کہ شائد اب مجھے بانٹ کھانے والے منہ کے بل گریں گے، مگر مجھے مایوسی ہوئی جب وہ محاذ بھی راگ درباری والے موسیقاروں کا اکٹھ ثابت ہوا۔ وہ محاذ زائد المعیاد ہونے سے پہلے اوندھے منہ گر گیا اور بدلے میں اقتدار کی دیگ کے آخری چاول ان کے حصے میں آئے۔ اس کے بعد انہوں نے میرا نام تک نہ لیا۔ میری آخری امید بھی دم توڑ گئی جب پوری کی پوری اولاد ہی بے اعتبار نکلی تو میرے فکری دشمنوں نے میری بے بسی پر قہقہے لگائے۔
کبھی اسمبلی سے قرار دادیں منظور ہوئیں اور کبھی بل پیش کیے گئے مگر میں اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ میرے بچے بھکاری بنے ہوئے اوپر والے ہاتھوں کو دیکھتے رہے۔ کبھی سرائیکی اور پنجابی کا جھگڑا آڑھے آتا رہا اور کبھی پنجاب کی تقسیم کو اپنے اقتدار کے خلاف سازش سمجھ کر مجھے دھتکار دیا گیا۔ مگر میرے ساتھ سب سے بڑا ہاتھ گزشتہ برس ہوا جب بہاولپور اور ملتان کو آپس میں الجھا کر کچھ دفاتر پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے بورڈز سجا دئیے گئے۔ صوبائی سطح کے افسران انتظامی بنیادوں پر ہفتہ وار یومیہ تقسیم کے ساتھ بیٹھنے لگے اور مجھے پھر علاقائی تعصب میں الجھا دیا گیا۔ گزشتہ پچاس برس سے میں لسانی نفرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا اور اب بہاولپور، ملتان کی قوس قزح میں جو رنگ سب سے زیادہ پھیکا ہوا وہ میرا تھا۔
صوبائی سیکرٹریٹ کے وائرس زدہ افتتاح کے بعد میں مزید مذاق بن گیا جب بڑی بڑی کوٹھیوں میں بٹھائے گئے ایڈیشنل انسپکٹر پولیس ایک ایس ایچ او پر بھی اپنا رعب نہ جما سکے۔ ایک سپاہی بھی ان کے حکم کے تابع نہ آیا اور اختیارات کی گیڈر سنگھی لاہور کے پنجرے میں بند رہی، حکم ریجنل پولیس آفیسرز کا چلتا رہا۔ درخواستیں اپنے حتمی نتائج کی منزل کو ترسنے لگیں۔ ”افسران کے مابین اختیارات کی جنگ میں ماتحت پس گئے“ جیسی سرخیاں اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ صوبائی سیکرٹریز بھی اسی طرح لاہور میں بیٹھے سیکشن افسر کے عملی طور پر ماتحت رہے۔ فائل ملتان اور بہاولپور میں جمع تو کر لی جاتی مگر اس کا آخری فیصلہ وہاں ہوتا جہاں میرے وارثان نے ماتھے ٹیک رکھے تھے۔ میں محرومی میں نصف صدی گزار آیا تھا مگر اب طنزیہ قہقہے مجھے جینے نہیں دیتے۔ میں اپنے نیلام ہوتے جاتے مقصد اور برباد ہو چکے خوابوں کا ذمہ دار خود ہوں کہ میری مٹی نے بہت سے وار کیے مگر صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے نام پر ہونے والا دھوکا سب سے الگ کسک رکھتا ہے۔ میں اپنوں کے مذاق پر زخمی ہوں، مجھے غیروں کے رویے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ میری کمر پر وار کرنے والے آہنی کلہاڑے میں جو دستہ ہے وہ میری دھرتی کے پیڑوں کی خشک ٹہنی سے تراشا گیا ہے۔ میں صوبہ جنوبی پنجاب المعروف سرائیکی صوبہ ہوں اور داستان ادھوری چھوڑ رہا ہوں کہ عام آدمی کو میرے گھر کی کہانیوں سے بھلا کیا سروکار؟ میری پیٹھ میں چھرا ہمیشہ اپنوں نے گھونپا ہے اس لیے جن پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں وہ بھی تو گھاگھ ہو چکے ہیں۔ اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے کے دھو کر میں تماشا نہیں بننا چاہتا اس لیے داستان کہتے کہتے میں سو جانا چاہتا ہوں۔
اب پھر سے صوبہ جنوبی پنجاب کو نئے خوابوں کے ساتھ شو کیس میں سجا کر مفاد کے کاروبار کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ پھر میرا وجود نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے کی خیالی دکانیں سجائی جائیں گی اور میرے نام پر چند بکاؤ ضمیروں والے بندروں کو طاقت کی ڈگڈگی پر نچایا جائے گا۔ پھر سے میرا مذاق اڑایا جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.