جی ہاں تحریک انصاف کی ایک اور وکٹ گر گئی۔ سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما عثمان ڈار اچانک منظر عام پر آگئے جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ انہیں غیر اعلانیہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر منظر عام پر آگئے اور انہوں نے تقریباً ”وہی باتیں کی ہیں جو اس پارٹی کے دوسرے اہم رہنما پریس کانفرنس میں نمودار ہو کر کرتے رہے ہیں۔ آج کے کالم میں ہم ان عوامل کا تجزیہ کریں گے کہ آخر پریس کانفرنسوں اور لاتعلقی کے بیانات میں کیا مماثلت اور یہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
مجھ جیسے بیشمار لوگ ۹ مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہوجانے اور رہا ہو کر پریس کانفرنسوں میں لاتعلقی کے اعلانات کو غور سے دیکھتے رہے ہیں۔ بہت سارے حقائق کا اندازہ بھی ہورہا ہے۔ متضاد تجزیے بھی پیش کئے جارہے ہیں۔ ایک بات اب سمجھ آرہی ہے۔ 9 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری پر رد عمل سامنے آنا فطری امر تھا لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ توڑ پھوڑ سرکاری عمارتوں اور عسکری تنصیبات ہی پر ہوئی؟ ہم سب کو یاد ہونا چاہئے کہ ایوب خان کا زمانہ ہو یا جنرل ضیا الحق کا زمانہ، بھٹو کا دور ہو یا بے نظیر کا دور حکومت، عوامی احتجاج معمول کا حصہ رہا ہے۔ عوامی غصہ عموماً ”سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ سیاسی ورکرز اور عوام جارحانہ احتجاج بھی کرتے ہیں۔ ریاستی تنصیبات پر حملے بھی ہوتے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور بعض اوقات مخالف سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو بھی نذر آتش کیا جاتا ہے۔ بسیں اور گاڑیوں کو آگ بھی لگائی جاتی ہے جیسا کہ خود عمران حکومت کو گرانے کے رد عمل میں عوام مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مگر 9مئی کے واقعات بالکل مختلف تھے۔ بہت منظم انداز میں اس احتجاج کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس سے ایسا لگتا تھا کہ شائد عوام بمقابلہ فوج کوئی جنگ تھی جیسا کہ ترکیہ میں ہوا تھا یا مصر کے تحریر اسکو ائر میں فوج کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ مگر وہ بھی سڑکوں پر ہوا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عسکری ادارے کے اندر سے بھی اس منصوبہ بندی کی کہیں نہ کہیں درپردہ حمایت کی
گئی تھی؟ اگر واقعی ایسا ہوا تھا تو یہ سیدھا سادہ بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب مارچ 1971میں مشرقی پاکستان میں ریاست کے خلاف بغاوت ہوئی اور ملک کا انتظام اداروں کے بجائے ایک سیاسی جماعت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا تو فوج کو حرکت میں آنا پڑا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔
اگر مشرقی پاکستان جیسا فوجی آپریشن یہاں کیا جاتا تو بات بگڑ بھی سکتی تھی۔ اس لحاظ سے فوری کارروائی نہ کر نے کا فیصلہ دانشمندانہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے تمام رہنماؤں کے گرفتار ہونے کے بعد پریس کانفرنس کر کے پارٹی سے الگ ہونے کے اعلان سے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ لوگ 9مئی کی منصوبہ بندی سے متفق تو نہیں تھے مگر مخالفت میں بولنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ اب جب گرفتاری کے دوران ان کو سمجھایا یا برین واش کیا گیا ہوگا یا دباؤ پڑا ہوگا تو ان کو ایک موقع ملا ہوگا کہ باہر نکل آئیں۔
بعض حلقے یہ بھی کہتے سنے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کی عوام میں بے پناہ مقبولیت نے اس وقت کی حکومت کو بوکھلا دیا تھا اور 9مئی کے واقعات کے لئے اسی نے یہ سارے منصوبے بنوائے تاکہ احتجاجی لوگ ریاستی تنصیبات پر حملے کریں اور اس طرح اس پارٹی اور اس کی قیادت کو ملک دشمن قرار دلوایا جا سکے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی سازشیں ہوتی رہی ہیں اس لئے یہ بات بھی خارج از امکان نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اس وقت کی حکومت نے بہت بڑا جرم کیا تھا۔ ایک تو ہزاروں احتجاجی عوام یا سیاسی کارکن سنگین جرم کے تحت پکڑے گئے اور ایک سیاسی جماعت پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اور دوسرے فوجی ادارہ بدنام ہوا۔
ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ عثمان ڈار یا اسد عمر یا فواد چودھری یا پرویز خٹک کو تحریک انصاف کے کسی خفیہ منصوبوں کا علم تھا تو ان سیکڑوں رہنماؤں میں سے ایک بھی اس وقت پارٹی سے باہر کیوں نہیں آگیا؟ اگر عوامی دباؤ کا خوف تھا تو کم ازکم زیر زمین ہی چلا جاتا۔ الگ ہونے والے ان تمام رہنماؤں کے مطابق منصوبے کا ایک تسلسل تھا تو پھر آپ کیوں نہ الگ ہو گئے؟ کوئی ایک ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ فیصل واوڈا واحد شخص ہیں جو پارٹی سے پہلے نکل گئے تھے مگر اس میں بھی کریڈٹ ان کو نہیں جاتا ہے۔ انہیں پارٹی سے پہلے نکالا گیا تھا اور اب وہ پاکستانی میڈیا چینل کے شیخ رشید بن چکے ہیں۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں ایک بات سامنے آتی ہے کہ اتنے ابہام اور متضاد خبروں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی ایسی تحقیقاتی کمیشن فوری طور پر تشکیل دی جائے جس میں عدلیہ، فوج، صحافت اور سول سوسائٹی کے غیر متنازع شخصیات شامل ہوں۔ وہ واقعات اور شواہد کی روشنی میں کھوج لگائیں کہ ۹ مئی کے واقعات کے پیچھے کون یا کون کون ہے۔ اس تحقیق سے پہلے ذمہ داران کا تعین کر لینا اور اس پر بحث کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے ایک کتا اگر کنویں میں گر کر مر جائے تو کنویں کا پانی پاک کرنے کے لئے کتا نکالنے کے بجائے صرف پانی نکال نکال کر پھینکا جاتا رہے۔
اس قسم کے اقدامات نہ لئے گئے تو بقول آرمی چیف:
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.