جنوری 2024 میں عام انتخابات کا اعلان ہونے سے ملک میں جاری ہیجان کی کیفیت کو بریک لگ گئی مختلف جماعتیں کہ جب ملک مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے کو چھوڑ چھاڑ کے جوڑ توڑ میں لگ گئیں ہیں دوسری طرف نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان نے سیاسی میدان میں گرما گرمی پیدا کردی ہے مسلم لیگ ن کا پورا ٹبر لندن یاترا پر تھا کارکنوں کو قائد کے استقبال کیلئے تیاریاں کرنے کا شاہی حکم جاری ہو چکا ہے اگر کہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے اعلان سے ن لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی ہے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ خوبیاں اور خامیاں ہر بندے میں ہو تی ہیں جیسا کہ شہباز شریف پنجاب کی حد تک تو ایک کامیاب لیڈر ٹھہرا، کوئی مانے یا نہ مانے صوبے کی ترقی کے لئے چھوٹے ”پاء“ جی نے کوئی لمحہ ضائع نہ کیا لیکن پی ڈی ایم کی صورت میں مرکز میں جا کر 16 ماہ میں سوائے رسوائی کے کچھ نہ ملا اور ن لیگ جو کبھی پی ٹی آئی کے دور میں ہر ضمنی الیکشن جیتتی تھی اپنے مختصر دورانیے میں ہر سیٹ ہارتی چلی گئی جس کا اندازہ پنجاب میں 17جولائی 2022ء کے الیکشن میں 20 میں سے صرف چند سیٹیں جیتیں، پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتیں تو مزے کرتی رہیں لیکن بدنامی ن لیگ کے پلڑے میں آئی اور پارٹی کا گراف دن بدن گرتا ہی چلا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر شہباز شریف کی جگہ نوازشریف ہوتے تو ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا نوازشریف سوائے ایک ادارے کے سب کے ساتھ بنا لیتے ہیں اور کام چلا لیتے ہیں دوسرا چین‘ سعودیہ‘ قطر سمیت دیگر ممالک بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ سب خوبیاں شہباز شریف میں نہ تھیں وہ صرف جذباتی تقریریں کر سکتے ہیں 2017ء میں جب نواز شریف کو اسلام آباد سے نکالا گیا تو ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا، سی پیک سمیت دیگر منصوبے بھارت سمیت متعدد ممالک کو کھٹکتے تھے اور پھر ان منصوبوں کو تالے لگانے کے لئے 2014ء کا نام نہاد دھرنا پلان مرتب کیا گیا جس میں عمران خان اور کینڈین شہری طاہر القادری کو ”ہائر“ کیا گیا جنہوں نے اسلام آباد میں خوب سرکس لگائی طاہر القادری تو اپنا کفن بھی ساتھ لے کر گئے تھے لیکن پھر واقفان حال جانتے ہیں کہ چوہدری سرور کی پے در پے ملاقاتوں نے انہیں دھرنا ختم کرنے پر مجبور کر دیا نام نہاد پانامہ کی آڑ میں نواز شریف گورنمنٹ ختم ہو گئی کہ جب معاشی لحاظ سے ہمارا ملک 37ویں نمبر پر تھا اب جبکہ معاشی تباہی میں 47ویں نمبر پر دنیا میں آ گیا ہے، یاد رہے ن لیگ نے 2013 میں حکومت سنبھالی تو کئی چیلنجز ملک کو درپیش تھے، دہشتگردی عروج پر تھی، لوڈشیڈنگ 18گھنٹے تک تھی اور معیشت کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا تھا، تین برس نیک نیتی سے کام کیا اور ترقی کی منازل حاصل کیں، قوم کے پیسہ کو امانت سمجھ کر خرچ کیا، پھر ڈگڈگی بجانے والا دھرنا دیا گیا جس نے ملک کا تیا پانچا کردیا، نوازشریف تین بار عوام کے ووٹ کے ذریعے ملک کے وزیراعظم بنے انکی کارکردگی سب کے سامنے ہے، ملک نے ہرشعبہ میں نمایاں ترقی کی تھی،ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے توانائی کے شعبے میں کبھی بھی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی گئی تھی ملک سے دہشتگردی کے ناسور کوختم کیا اور ضرب عضب کی کامیابی بھی سیاسی قیادت کی بصیرت کانتیجہ ہے، سی پیک کے ذریعے نواز شریف ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر رہے تھے کہ دشمنوں کو ایک آنکھ نہ بھائے اور نام نہاد پانامہ کی آڑ میں انہیں اقتدار سے باہر کردیا اس کیس میں باقی سب ہل پر نہائے ہوئے نکلے؟ اب جبکہ نواز شریف ایک بار پھر وطن واپس آکر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم کیلئے پر تول رہے ہیں تو انہیں پکڑن پکڑان کی روش چھوڑ کرملکی ترقی عوامی خوشحالی کا پلان دینا چاہیے تاکہ ملکی نقصان کا ازالہ ہو سکے، ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ افغانستان”سونا“ امپورٹ کر رہا ہے اور ہم ریکوڈک کے جرمانے بھر رہے ہیں، اختلافات کا حل باہمی مشاورت سے ڈھونڈا جا سکتا ہے اس کیلئے چودھری شجاعت، زرداری اور محمد علی درانی کی ملاقاتوں کا کچھ نہ کچھ رزلٹ نکلنا چاہیے؟ 2022 میں عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر کے پی ڈی ایم حکومت کا فوری الیکشن کے بجائے اسمبلی کی پوری مدت تک حکمرانی کرنے کے فیصلے نے ن لیگ کو خاص طور پر عوامی سطح پر تباہ کر دیاہے، اگر شہباز شریف بڑے بھائی نواز شریف کی بات مان لیتے اور الیکشن کا فوری اعلان کردیتے تو ن لیگ کا سنیریو ہی کچھ اور ہوتا لیکن اتحادیوں خصوصا آصف زرداری کی ہاں میں ہاں ملا کر سیاست کو داؤ پر لگا دیا ان حالات میں ن لیگ نے اپنی ساری امیدیں نواز شریف کی واپسی سے منسلک کی ہوئی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف اعلان کے مطابق 21 اکتوبر کو واپس لوٹتے ہیں کہ نہیں؟ اگر وہ واپس نہیں آتے تو رہی سہی عزت بھی مٹی میں مل جائے گی، انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہو گی جو ملکی معیشت کی بہتری کیلئے لازم ہے، سب سیاستدان اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں اور ماضی کی بجائے پاکستان کے حال پر توجہ دیں جبکہ نواز شریف کیس کھلنے سے ڈر گئے تو لوگوں کے واپس نہ آنے کے شکوک سچ ثابت ہوں گے اور اگر قائد ن لیگ اب نہ آئے تو پھر کبھی نہیں آئیں گے؟؟؟
تبصرے بند ہیں.