یہ تحریر پاکستانی عوام کی مشکلات اورمصیبتوں کے حل پر ایک مختصر تبصرہ یا طائرانہ جائزہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو زندگی میں لاتعداد مشورے دیئے لیکن اس نے اپنے ورکروں کی عقل پر اعتماد کرنے کے بجائے عقل مستعار لی اور آج انجام آپ کے سامنے ہے۔ عبد العلیم خان سے بھائیوں جیسا تعلق ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات نا صرف سنتے ہیں بلکہ قابلِ عمل پروگراموں پر سر دھڑ کی بازی بھی لگا دیتے ہیں۔ اب وہ ایک سیاسی جماعت آئی پی پی کے صدر ہیں سو اُنہوں نے عوام میں انپے منشور کے ساتھ جانا ہے اورمنشور وہ ہوناچاہیے جو قابل عمل اورعام آدمی کی سمجھ میں آنا والا ہو ورنہ عمران نیازی عوام خواہشات کو جس گراف پر پہنچا گیا ہے وہاں معجزات توکام آ سکتے ہیں انسانی کوشش کی سعئی رائیگاں کا نیا تجربہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عام آدمی کا تعلق پیچیدہ فلسفوں اور ناقابل فہم ایجنڈوں سے نہیں ہوتا یہ ذمہ داری سیاسی جماعت کی ہوتی ہے کہ وہ عوامی خواہشات اور ضرورتوں کومدنظر رکھتے ہوئے عوامی منشورکو آسان اور عام فہم انداز میں ترتیب دے۔ عبد العلیم خان کے فلاحی کاموں نے یہ تو بہرحال ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک بہترین منتظم اور منصوبہ ساز ہیں اوراگر انہیں ریاستی طاقت کے استعمال کا موقع ملا تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اوریہ بات میں کسی ذاتی تعلق کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا، اس کیلئے میں اپنے ہر حرف کیلئے خدا کو جوابدہ ہوں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان میں نیب اور اینٹی کرپشن کے اداروں کو مضبوط بنیادوں پر سیاسی اورغیرسیاسی مداخلت کے بغیر چلا سکتی ہے اورایک بے رحم، بلاامتیاز احتساب کرنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتی ہے تو پاکستان درست سمت پررواں دواں ہوسکتا ہے۔ اگر نیب میں پلی بارگین کی سہولت کو ختم کردیا جائے تاکہ ملزم کے اعتراف جرم کے بعد کی ہر رعایت جو قانون اور اخلاقیات کا کھلا مذاق اورسیاستدانوں کی توہین کا باعث بن رہا ہے تو اِس سے بہتر اورکیا ہوسکتا ہے؟ بجلی کی کمپنیوں کے ذمہ واجب الادار قوم کو اگرہنگامی بنیادوں پر وصول کرکے عوام کے دوسرے فلاحی منصوبوں پر استعمال کیا جائے، صوبائی اورضلعی بجلی گھروں کا قیام جسے ”پاکستان بجلی گھر“ کے نام سے لاؤنچ کیا جا ئے تاکہ بجلی کمپنیوں کے درمیان مقابلے کا رجحان پیدا کرکے قیمتوں کو نیچے لایا جاسکے اورعام شہری اپنی مرضی سے سستی اور بہتر سہولتیں دینے والی کمپنی سے بجلی خرید سکے توکیا اِسے کسی معجزے سے کم کہا جاسکتا ہے؟ بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والو ں کو اپنا آڈٹ کرانے کا پابند کردیا جائے اور بجلی کے تقسیم کار کسی ایک صوبے یا ضلع کی بجلی کسی دوسرے ضلع یا شہر کو نہ دے سکیں تواِس میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ہر صوبہ اپنے اضلاع میں مقامی کمیٹیاں بنا کر کاموں کی فہرست ترتیب دے اور کسی ٹھیکیدار کو اتنی دیر تک ادائیگی نہ ہو جب تک متعلقہ مقامی آبادی کام کے مکمل ہونے کا کلیرنس سرٹیفکیٹ جاری نہ کردے۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی موجودگی میں بھی چیئرمین اورکونسلر زمقامی لوگوں کے کلیرنس سرٹیفکیٹ کے پابند بنا دیئے جائیں تو معاملہ ایک حد تک شفاف ہو سکتا ہے۔صاف اورپینے کے قابل پانی پاکستانی شہریوں کا حق قرار دیا جائے اور اِس سلسلے میں ضلعی حکومت کو پابند کیا جائے گا۔ پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ و ہ ناجائز منافع خوری کے بجائے عام شہریوں کی استطاعت کے مطابق پانی اُن کی دسترس میں دیں۔
پانی کے وسائل بڑھانے کیلئے نہری پانی کی آلودگی ختم کرکے اُسے کھیتی باڑی اورپروسیس کرکے پینے کے قابل بنایا جائے۔کھلے دودھ میں ملاوٹ، بچوں کے دودھ کو میڈیکل آیٹم قرار دینا،جعلی ادویات اورکھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ یاغیر معیاری مہیا کرنے پرسخت سزاؤں کا قانون متعارف کروایا جائے۔ ہر ضلع میں 7سو بچوں سے زائد بچے داخل نہ کیے جائیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں آن لائن تفصیل کے ساتھ سرکاری سطح پر طے کی جائیں اورکوئی اضافی بوجھ والدین پر نہ ڈالا جائے۔ کوالٹی ایجوکیشن کیلئے ہر سکول کو ضروری سہولیات مہیا کی جائیں۔ بچوں کے سکولوں میں واٹر فلٹر پلانٹ لازمی قرار دیا جائے اور واٹر فلٹر پلانٹ کے بغیر پرائیویٹ سکول کی اجازت ہی نہ ہو۔ہیڈماسٹر ٗپرنسپل اور وائس چانسلرز کو لائٹس، پنکھے، بلیک بورڈ، کھیلوں کا سامان اور دوسری اشیاء ضروریہ برائے طلباء کیلئے خصوصی فنڈ سرکار جاری کرے جو اساتذہ کمیٹی کی سفارشات پر استعمال میں لایا جائے۔کمپیوٹر اورہائی سپیڈ انٹر نیٹ ہر سکول کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیا جائے تاکہ بچے زیادہ سے زیادہ انفارمیشن حاصل کرکے بہترین باخبر شہری بن سکیں۔ صحت اور تعلیم کو بجٹ میں نمایاں حصہ ملنا چاہیے اور گھوسٹ سکولوں اور ڈسپنسریوں کا سو فیصد خاتمہ کردیا جائے۔ تمام کنٹریکٹ ٹیچرز کو کنفرم کردیا جائے تاکہ وہ معاشی فکر اور بیروزگاری سے آزاد ہو کر بچوں کی تعلیم پرتوجہ دے سکیں۔پرائمری ہیلتھ یونٹس کوملک بھر میں 50% بڑھا دیا جائے بلکہ اس کی ایمرجنسی نافذکی جائے۔ پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں ”ایک مریض ایک ڈاکٹر“ کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کیلئے فوری اقدامات شروع کردیئے جائیں تاکہ کم از کم آنے والی نسلوں کو تو یہ سہولت میسرہو۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں 30% بستروں کا اضافہ کرنے کے علاوہ سو فیصد ادویات اور ٹیسٹ فری کویقینی بنایا جائے۔
مہنگائی اور چور بازاری میں فرق ہوتا ہے۔یہ درست ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے چور بازاری، منافع خوری، ذخیر ہ اندوزی پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی عوام بدترین مصیبت میں گرفتار ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا قیام اور با اختیار مجسٹریٹس کے ذریعے سزا و جزا کے عمل کو بلا تفریق لاگو کر کے اگر مہنگائی میں فوری طور پر کمی نہیں ہوسکتی تو پاکستانی عوام کو چور بازاری سے بچایا جاسکتا ہے۔ ادویات کی سستی فراہمی کے علاوہ آلات ِ جراحی اوردوسری مشینری سستے داموں فراہم کی جائے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں غرباء کیلئے الگ وارڈ اور فری علاج کے معاہدے کے بغیر نجی ہسپتال کھولنے کی اجازت نہیں ہو نی چاہیے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں مرحلہ وار آخری بس سٹاپ تک روشنی اورسی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں کمی اورکسی جرم کے ارتکاب ملزمان تک رسائی میں آسانی ہوسکے۔عوامی مقامات، بس سٹاپس، گرلز کالجز کے باہر اور یونیورسٹیز کی حدود اور گرد و نواح میں بھی کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ عام آدمی اور طالبات کو زیادہ سے زیادہ سکیورٹی فراہم کی جاسکے۔ برق رفتار عدالتی انصاف کے حوالے سے خواتین اور بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی مقدمات کاسپیڈی ٹرائل کیا جائے اور اِس کا وقت مقرر کرنے کیلئے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔بار اوربینچ کو طاقتور اور شفاف بنانے کیلئے ججو ں کی تعدا د میں اضافہ اور قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے طریقہ کار کوشفاف بنایا جائے۔ بسوں، اورنج لائن ٹرین اور بڑی شاہراہوں پر چلنے والی ہر چیز میں خواتین سکیورٹی کو تعینا ت کیا جائے گا۔ مو بائل فون پر ہیلپ بٹن دیا جائے جو قریبی پولیس اسٹیشن یا نزدیک ترین گشتی پولیس کے علاوہ قریبی رشتہ دار یا خواتین محافظ یا پھر سماجی رضاکاروں کے ساتھ فوری رابطے میں ہو۔ عام آدمی کو دفاتر کے چکرلگوانے کے بجائے سرکاری فارم، سرکاری ملازمتوں کے اشتہار، سرکاری پراجیکٹس، حکومتی کارکردگی، اکاؤنٹ اورحکومتی عملے کی آن لائن دستیابی کویقینی بنایا جائے۔ جس سے شفافیت اور جواب طلبی، حکومت کیلئے آسان اورعام آدمی کیلئے آسان تر ہو جائے گی۔
ایک مستقل زرعی اصلاحاتی کمیشن قائم کیا جائے تاکہ زرعی اصلاحات کے نفاذ کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہے اور ان کو مزید موثر بنانے کے لیے نہ صرف اقدامات کیے جائیں بلکہ ان اقدامات کے نتائج کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے اور اس سلسلے میں مشکلات کو دُور کیا جائے۔ سرکاری زمین ہنگامی بنیادوں پر بے زمین اورغریب ہاریوں میں تقسیم کی جائے۔ جس کیلئے صوبائی حکومتوں سے فوری ڈیٹا فراہم کرنے کے احکامات جاری ہونے چاہئیں۔ زرعی گریجوایٹس میں فاضل سرکاری زرعی زمین تقسیم کی جائیں تاکہ زراعت میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے اورعام کاشتکار بھی اُن کی تعلیم اور جدیدیت سے مستفید ہو سکے۔ جبری مشقت اور نجی قیدخانوں سے نجات کے لیے بانڈڈ لیبر ایکٹ 1929ء پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور کسی مزدور یا ہاری کو ماہانہ تنخواہ سے زائد بطور ایڈوانس رقم اور قرض خلافِ قانون قرار دیا جائے۔ پرانے قرض داروں کے قرض رائٹ آف قرار دیے جائیں۔ زمین داروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی تمام زمینیں زیرکاشت لائیں اگرکوئی زمین دار بغیر کسی مثبت عذر کے مسلسل تین سال تک زمینوں کو بغیر کاشت کے پڑا رہنے دے گا تو حکومت ان کو واپس لے کر مستحق کاشت کاروں میں تقسیم کرے۔عبد العلیم خان کو حالات اورقدرت ایک موقع فراہم کررہی ہے سو انہیں انپے آپ کو عوامی خدمت کیلئے وقف کردینا چاہیے اورعوامی خدمت صرف عوام کے ریلیف اور وقار کا نام ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.