پاکستان کے موجودہ مسائل پہ ہر روز ایک نئے انداز اور مختلف پہلوؤں پہ ڈسکشن جاری رہتی ہے مگر حالت زار اور مسائل سمٹتے دکھائی ہی نہیں دے رہے، ایک کے بعد ایک مشکل ہر نئے دن کے ساتھ سر اُٹھائے کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، کبھی بجلی کے یونٹ میں اضافہ، تو کبھی آٹے کے نرخوں میں اضافہ، ہر نئے دن کے ساتھ مہنگائی کا اک نیا طوفان سر اُٹھائے عوام کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ غریب آدمی ہر نئے دن کے ساتھ اپنی روٹی کمانے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔
عوام کو روزگار بھی میسر نہیں پڑھے لکھے نوجوان کا آج بھی کوئی پُرسان حال نہیں۔ جس طرح مہنگائی روز بہ روز طول پکڑ رہی ہے اُس طرح عوام کو روزگار میسر نہیں ہے، مگر اس جانب کسی کی توجہ نہیں، آخر کون سوچے گا، ہر کسی کی توجہ الیکشن کی جانب ہے کہ ملک میں بہتری لانے اور مسائل کے خاتمے کے لیے الیکشن وقت پہ کرانا بہت ضروری ہیں۔ مگر اس سے پہلے پی ٹی آئی نے کونسا تیر مار لیا، یا پی ڈی ایم کی حکومت نے کیا عوام کو ریلیف دینے کے فیصلے کر لیے اُلٹا میں تو یہی کہوں گی کہ 12 جماعتوں کے بندھن نے عوام کو باندھ کے مارا، مسائل کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوئے۔آئی ایم ایف سے قرض لیا اُس سے صرف اشرافیہ ڈیفالٹ سے بچی مگر عام آدمی کا دیوالیہ نکل گیا۔ عوام کا ہر گزرتے دن کے ساتھ جینا محال ہو گیا، مرے پہ سو درے یہ قرض عوام کی فلاح کے لیے لیا مگر پوری پی ڈی ایم نے وزیراعظم اور وزراء سمیت سلامی ایک ایک ارب کی لی، اس کا حساب کون لے گا۔
آج تک انہی شاہ خرچیوں نے تو پاکستانی روپے کو کاغذ کی پرچیوں میں بدل ڈالا۔ روٹی بھی غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہو رہی ہے۔ 15 اکتوبر سے ملوں کو سرکاری گندم 4450 روپے من فروخت کی جائیگی، 20 کلو آٹے کا تھیلا 2600 میں فروخت کیا جائے گا اور اوپن مارکیٹ میں 2750 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ اب شہباز شریف سے پوچھا جائے اور وہ وزراء جو خود کو عوامی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو دعویٰ شہباز شریف نے کیا کہ گندم کی پیداوار زیادہ کی گئی اور حالات یہ کہ آٹے کی قیمتوں کو بھی کنٹرول نہیں کیا جا پا رہا۔ ہر چیز پہ سبسڈی کاخاتمہ کیا جا رہا ہے۔
بجلی کے نرخوں میں بھی ایک بار پھر سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں صورت حالات کو دیکھتے ہوئے پنجابی کا محاورہ یاد آیا ”کھیت اُجاڑن باہر لے…… ڈانگاں کھاون بکریاں“۔ کھیت اُجاڑنے والے آج بھی مزے میں لندن بیٹھے ہیں مگر ڈانگاں عوام برداشت کر رہی ہے، آخر یہ سلسلہ کب تلک یونہی چلتا چلا جائے گا۔
پاکستان کی اقتصادیات پر سیاسی عدم استحکام کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں واضح ہو گیا، مالی سال 2022 میں شرح نمو 6% جبکہ 2023 میں یہ 0.29% کے لگ بھگ رہی۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں سیاسی عدم استحکام نہ ہو تو سرمایہ کار ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ چین کے ایک جریدے نے گذشتہ ماہ پاکستان کی معیشت پر جو تفصیلی جائزہ پیش کیا، اس میں تخمینہ لگایا گیا کہ سیاسی عدم استحکام سے پاکستانی معیشت کو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے دس فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے قبل آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بھی دگرگوں معاشی حالات کو سیاسی حالات سے منسوب کیا گیا تھا۔
عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تجزیے ایک طرف، ایک عام آمی بھی یہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت ملکی معیشت میں جو تنزلی کی کیفیت ہے یہ سرا سر بے یقینی کا نتیجہ ہے۔ جب سیاسی عدم استحکام آخری حدوں کو چھو رہا ہو تو افواہوں کو بھی جگہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات کا انعقاد کوئی غیر ملکی مطالبہ نہیں بلکہ ہمارا آئینی و جمہوری تقاضا ہے۔
ملکی آئین سیاسی حکومت کی عدم موجودگی کو زیادہ سے زیادہ نوے دن کی مہلت دیتا ہے اور تمام اداروں کو اس مدت میں الیکشن کمیشن کی معاونت سے ملک میں نئی حکومت کے قیام کا پابند بناتا ہے۔ ایک منتخب سیاسی حکومت نگران انتظامیہ کے مقابلے میں بڑے فیصلے کرنے میں کہیں زیادہ با اختیار اور عالمی سطح کے معاہدوں میں بہتر ساکھ کی حامل ہوتی ہے۔ چائنا کے جریدے کا تجزیہ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک رپورٹ ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتی ہے کہ اپنی خامیوں کو دور کرتے ہوئے معاشی درستی کی جانب آنے کے لیے ہمیں بہتر معاشی پلاننگ اور ریفارمز کی اشد ضرورت ہے جن پر اگر فوری طور پہ عمل پیرا ہو جایا جائے تو اس صورت میں ہم مزید مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.