پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ 2023 کی منظوری کے معاملے پر صدر پاکستان عارف علوی کا یو ٹرن اور پھر ان قوانین سے متاثر ہونے والوں سے معافی طلب کرنے کا مقصد شاید چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے سامنے اپنے تئیں احساس شرمندگی مٹانے کی ایک کوشیش تھی. لیکن زمینی حقائق داستان کچھ اور ہی سناتے ہیں. اس کہانی کا آغاز 20 اگست کے روز ہوا جب صدر مملکت عارف علوی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ میں تبدیلیوں کی منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ”جیسا کہ خدا میرا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل، 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل، 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔” صدر نے کہا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں "غیر موثر” بنایا جا سکے۔ "میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا انہیں واپس کر دیا گیا ہے اور یقین دلایا گیا کہ وہ کر چکے ہیں۔ تاہم، مجھے آج پتہ چلا ہے کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔ جیسا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاء اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو متاثر ہوں گے”، اس پیغام کے بعد سے آج تک ایوان صدر نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ صدر پاکستان اس بیان سے تین روز قبل ان بلوں پر اپنی منظوری دے چکے تھے اور اس منظوری سے متعلق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خبریں بھی شائع ہو چکی تھیں۔ دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے قانون سازوں کی تنقید کے درمیان یہ صدر کو منظوری کے لیے بھیج دئیے گئے تھے۔ تاہم پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) ایکٹ 2023 کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔ دونوں قوانین کا گزٹ نوٹیفکیشن 18 اگست کو جاری کیا گیا اور یہ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ 11 اگست اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 17 اگست سے نافذ العمل ہوں گے۔صدر عارف علوی کا یہ بیان پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج کی گئی پہلی ایف آئی آر میں گرفتار ہونے کے ایک دن بعد آیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری سے دو روز قبل 15 اگست کو صدر نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ تیرہ بلوں کو پارلیمنٹ میں دوبارہ غور کے لیے واپس کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ تیرہ بل صدر مملکت نے دستخط کیے بغیر واپس وزیر اعظم آفس واپس بھجوائے تھے لیکن ان کے ساتھ تحریری ہدایت تھی کہ پارلیمنٹ ان بلز پر دوبارہ غور کرے۔ پارلیمنٹ کو واپس بھجوائے گئے بلوں میں پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دینے سے متعلق کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل، نیشل اسکلز یونیورسٹی ترمیمی بل، امپورٹ ایکسپورٹ ترمیمی بلز، ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل، پاکستان انسٹیوٹ اف مینجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی بل، نیوز پیپز اینڈ نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن بل، صحافیوں اور میڈیا پروفیشنل کے تحفظ کے بل کے علاوہ ہورائزن یونیورسٹی بل، فیڈرل پبلک سروس کمیشن ترمیمی بل، وفاقی اردو یونیورسٹی ترمیمی بل، این ایف سی انسٹیٹوٹ ملتان ترمیمی بل، نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل اور قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کی مدت ختم ہونے پر دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے قوانین کو واپس کیا گیا تھا اس لئے ان کی قسمت کا فیصلہ آئندہ عام انتخابات کے بعد ہو گا جب نئی قومی اسمبلی قائم ہو گی۔ اگر صدر مملکت چاہتے تو آرمی اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بلز کو بھی دیگر بلز اور نوٹ کے ہمراہ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے تھے۔ لیکن ایسا نہ کرنے کی وجہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ ان بلوں کی واپسی سے ایک ہفتہ قبل آٹھ اپریل کو صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 75 کی شقوں کے مطابق چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 بھی پارلیمنٹ کو واپس بھجوایا تھا تاکہ اس کی درستگی کی جانچ پڑتال کو پورا کیا جا سکے۔ اس بل کے ہمراہ صدر مملکت نے بل کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک خصوصی خط بھی لکھا، خط میں صدر نے کہا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023، پہلی نظر میں پارلیمنٹ کی اہلیت سے باہر ہے اور اسے رنگین قانون سازی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں اس بل کو آئین کے مطابق، اس کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال کو پورا کرنے کے لیے نظر ثانی کی درخواست کے ساتھ واپس کرنا مناسب اور مناسب ہے۔ اس خط میں صدر نے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی جن پر ان کی رائے میں مناسب غور و فکر کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں یہ بات تو واضح ہے کہ صدر مملکت بخوبی جانتے تھے کہ اگر انہوں نے مقررہ مدت میں بلوں پر اعتراض عائد نہ کیا اور باضابطہ آئینی طریقہ کار پر عمل نہ کیا تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ اگر وہ یہ دونوں قوانین بھی پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لئے بھجوائے گئے دیگر قوانین کے ساتھ واپس بھجوا دیتے تو ان کی منظوری بھی آئندہ انتخابات کے بعد پر چلی جاتی۔ اور ایسا نہ کرنے پر جو ہونا تھا، وہی ہوا، اس خاموشی کی قیمت اب عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر رہنماؤں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔بقول شاعر:
دیکھا جو تیر کھا کر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
Prev Post
تبصرے بند ہیں.