میرا خیال تھا بجلی کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے اور مہنگائی پر پورے مُلک میں اُٹھنے والی احتجاجی تحریک کا نگران حکمرانوں اور اُن کے سرپرستوں پر کوئی اثر ہو گا اور وہ متوقع خوفناک نتائج کا ادراک کرتے ہوئے اپنی شاہ خرچیاں کم کرکے عوام کو ریلیف دینے کے سنجیدہ اقدامات کریں گے، ڈھٹائی کی یہ انتہا ہے ایسا کرنے کے بجائے اُلٹا اگلے روز اُنہوں نے پیٹرول میں مزید اٹھارہ روپے اضافہ کر دیا ہے، یعنی اُنہوں نے یہ پیغام دیا ہے کوئی احتجاجی تحریک اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، میرے نزدیک یہ اُن کی خام خیالی ہے، بپھرے ہوئے لوگ اب بکھرے ہوئے لوگ نہیں رہے، اپنے حق چھیننے کے لئے وہ اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں، جو آگ اُن کے اندر دہک رہی ہے اْسے بُجھانے کا کوئی بندوبست فوری طور پر نہ کیا گیا سب کچھ جل کے راکھ ہو جائے گا، حکمرانوں کے بڑے بڑے محلات سمیت اُن کا کچھ محفوظ نہیں رہے گا، بارہا عرض کر رہا ہوں اور اس موضوع پر میرا مسلسل یہ تیسرا کالم ہے کہ چھوٹی چھوٹی چنگاریاں جو بڑے بڑے شعلے بنتے جا رہے ہیں اُنہیں بُجھانے کا کچھ اہتمام کر لیں اور وہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ سرکار اپنی ہر طرح کی شاہ خرچیاں بند کر کے اُس بچت سے عوام کو ریلیف دے، میں نے نگران وزیراعظم سے منسوب ایک بیان پڑھا کہ "میری تنخواہ تین لاکھ ہے اور مجھ سے اربوں کھربوں کے فیصلے کروائے جاتے ہیں”، وہ اپنی تین لاکھ یا اس سے کہیں زیادہ ملنے والی تنخواہ و مراعات کو صرف اسی صورت میں حلال کر سکتے ہیں کہ اُن کا ہر فیصلہ چاہے وہ لاکھوں کاہو یا اربوں کھربوں کا اُس کا فائدہ عوام کو پہنچنا چاہئے، اگر دوسرے حکمرانوں کی طرح اُنہوں نے بھی اربوں کھربوں روپے اشرافیہ اور بدمعاشیہ کو فائدہ پہنچانے پر خرچ کرنے ہیں پھر اُن کی تنخواہ تین لاکھ ہو یا تیرہ لاکھ اُسے حلال کرنے کا کوئی حلال طریقہ اُن کے پاس شاید نہیں ہوگا۔۔
عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے دو روز قبل مجھے بُلایا، میں اس ملاقات کی ایک طویل قسط وار کہانی لکھ چُکاہوں، بس مکرر یہ عرض کرنا چاہتاہوں، اُن کے پاس جانے سے پہلے میں نے بارہ اھم نکات لکھ لئے تھے، ایک اُن میں یہ بھی تھا کہ مُلک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، شایدہی کوئی ممبر پارلیمنٹ ایساہوگا مال وزر کے انبار جس کے پاس نہ ہوں،اُنہیں تنخواہوں کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ اپنے ہوائی کرائے خود ادا کر سکتے ہیں، اُنہیں جو دیگر مراعات ملتی ہیں اُس پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے، آپ دوسروں کو چھوڑیں، آپ اپنی جماعت کے ارکان پارلیمینٹ کو بُلائیں،مُلک جس معاشی بحران کا شکار ہے اُنہیں اس کا احساس دلائیں اور اُن سے گزارش کریں کم از کم دو برسوں تک ہماری جماعت کا کوئی رُکن اسمبلی تنخواہ یا دیگر غیر ضروری مراعات نہیں لے گا۔۔ آپ کے اس فیصلے کا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسری جماعتوں کو بھی بادل نخواستہ ہی سہی کچھ شرم آئے گی اور آپ کے اس فیصلے پر وہ بھی عمل کریں گی، میں نے خان صاحب کو اس موقع پر ایک لطیفہ بھی سُنایا تھا "ایک صاحب ایک دست شناس کے پاس گئے، اُس نے اُن کا ہاتھ دیکھا اور کہا "دو برسوں تک تمہارے حالات بہت خراب رہیں گے”، اُس شخص نے پوچھا "حضرت اُس کے بعد میرے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ "دست شناش بولا” نہیں، اُس کے بعد تمہیں ان حالات کو برداشت کرنے کی عاد ت ہو جائے گی”۔۔ میں نے عرض کیا "خان صاحب اگر دو برسوں تک ان امیر کبیر ارکان پارلیمینٹ کو تنخواہیں اور مراعات نہ ملیں انشااللہ پھر اُنہیں اس کی عاد ت ہو جائے گی، اور ویسے بھی ان میں سے اکثر اپنی حیثیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے "حرام ذرائع” سے اتنا کما لیتے ہیں اُنہیں حلال تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی”، میری یہ تجویز سُن کر خان صاحب سوچ میں پڑ گئے”،پھر فرمایا "تو اس سے کتنی بچت ہو جائے گی؟”، میں نے عرض کیا "بچت تو مجھے نہیں معلوم کتنی ہوگی مگر عوام میں یہ پیغام ضرور چلے جائے گا کہ مُلک کی معاشی بدحالی کا سارا بوجھ ہمارے نئے حکمران غریب عوام پر نہیں ڈالتے، تھوڑا خود بھی برداشت کرتے ہیں”، اُس وقت تو خان صاحب نے اس تجویز پر غور و فکر کا مجھ سے وعدہ کیا، بعد میں اُن کا یہ وعدہ بھی اُسی طرح وفا نہ ہوا جس طرح اُن کے کئی دوسرے وعدے وفا نہ ہوئے۔۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے عوام معاشی بدحالی کا سارا بوجھ اب خود پر لاد لاد کر تھک چکے ہیں، اُن کی ہمت جواب دے چکی ہے، اُن کی کمر دوہری ہو چکی ہے،یہ سلسلہ مزید اب نہیں چل سکتا، عوام یہ بدمعاشی مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ حکمران اور افسران خود عیاشیاں کریں اور اپنی مالی عیاشیوں و بدمعاشیوں کے سارے بوجھ عوام پر ڈال دیں۔ ایک بات بڑے ادب سے آئی ایم ایف سے بھی پوچھنا چاہتاہوں، وہ جب ہمارے حکمرانوں سے سودے بازیاں کرتی ہے تو ساری پابندیاں عوام پر لگانے کیلئے کیوں کہتی ہے؟ ہمیں اپنے مزید قرض کے بوجھ تلے دبانے کیلئے کچھ پابندیاں وہ ہمارے شاہ خرچ حکمرانوں پر کیوں نہیں لگاتی کہ وہ اپنی تنخواہیں زیادہ نہ بڑھائیں، وہ اپنی مراعات کم کریں، وہ بڑی بڑی قیمتی نئی گاڑیاں اور جہاز نہ خریدیں، وہ اپنے علاج کے لئے سرکاری خرچ پر بیرون مُلک نہ جائیں، مفت کا پیٹرول و بجلی استعمال نہ کریں”۔۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے آئی ایم ایف نے ہمارے حکمرانوں سے یہ سودا طے کر رکھا ہے کہ”آپ ہم سے مسلسل قرض لیتے رہیں، ہم آپ کی ذاتی مالی بدمعاشیوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائیں گے”۔۔
اللہ کرے نگران وزیراعظم عوام کو کچھ ریلیف دینے کے لئے جو اجلاس پر اجلاس کئے جارہے ہیں اُس کا کوئی اچھا نتیجہ نکل سکے، کہیں یہ نہ ہو تمام اجلاسوں سے فارغ ہو کر وہ پریس کانفرنس فرما دیں کہ”کیا فرق پڑتا ہے اگر بجلی پر نئے ٹیکس لگا دئیے گئے، کیا فرق پڑتا ہے اگر پیٹرول کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئیں، کیا فرق پڑتا ہے اگر گیس کی قیمتیں مذید بڑھا دیں گے، کیا فرق پڑتا ہے اگر مہنگائی سے تنگ آکر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر مہنگائی سے تنگ آ کر وہ اپنی عزتیں اور بچے فروخت کرنے لگے ہیں؟، جیسے چند روز پہلے اُنہوں نے فرمایا تھا "کیا فرق پڑتا ہے اگر کچھ پاکستانی مُلک چھوڑ کر جا رہے ہیں”، میرے خیال میں یہ بات اُنہوں نے کسی اور پس منظر میں کہی تھی، سوشل میڈیا پر اُسے منفی انداز میں پیش کیا گیا، پر میرا مشورہ ہے جس قسم کے نازک حالات ہیں اپنی گفتگو میں اُنہیں بہت محتاط رہنا چاہئے، عمل میں اُس سے بھی زیادہ محتاط رہنا چاہئے، ورنہ وہ اچھی یادیں چھوڑ کر رخصت نہیں ہوں گے، اُنہیں کہنا چاہئے تھا "ہمارا کام صرف آئینی مدت میں الیکشن کروانا ہے پھر بھی ہم کوشش کریں گے اس مُدت میں ایسے حالات پیدا ہوں کہ لوگوں میں تھوڑا حوصلہ تھوڑی اُمید پیداہو جائے اور مُلک سے بھاگنے کی اُن کی کوششوں اور خواہشوں میں تھوڑی کمی واقع ہو جائے”، پچھلے دنوں ہمارے عرفان صدیقی صاحب نے اُن پر کالم لکھا جس کے آخر میں اُنہوں نے فرمایا "دوست ہونے کے ناطے میری آرزو ہے کہ انوارالحق کاکڑ اپنی پوری توجہ بروقت آزادانہ و منصفانہ انتخابات پر دے، ورنہ غلام مصطفی جتوئی، بلغ شیر مزاری، معین قریشی، معراج خالد، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسو، اور جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کے ناموں کے ساتھ ایک اور نام کا اضافہ ہو جائے گا، انوارالحق کاکڑ۔۔
مجھے نہیں معلوم جناب عرفان صدیقی نے اپنے دوست انوارالحق کاکڑ سے منصفانہ آزادانہ اور بروقت انتخابات کروانے کا مطالبہ شریف برادران سے پوچھ کر کیا ہے یا نہیں؟ مگر مجھے لگتا ہے اُن کے دوست انوارالحق کاکڑ کا نام اُن سارے سابق نگران وزرائے اعظم کے ساتھ شاید اس لئے نہ لکھا جا سکے کہ ان تمام سابق نگران وزرائے اعظم نے کم از کم بروقت الیکشن ضرور کروا دئیے تھے۔.
Prev Post
تبصرے بند ہیں.