وطن عزیز دنیا کی غالباً ساتویں ڈیکلیئرڈ ایٹمی قوت ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال اور چار مفید ترین موسموں، پانی، سمندر، دریاؤں کی انتہائی زرخیز دھرتی ہے۔ اس حکمران طبقے جس میں آمر، جمہوری، بیورو کریسی اور عدلیہ نے اپنے حصے اور جُسے سے زیادہ بربادی کی کامیاب کوششیں کیں۔ محض آئین اور قانون سے ماورا اختیارات کے حصول اور اکثر اوقات آئینی طریقہ سے حصول کی زحمت نہیں کی باقاعدہ اقدامات کیے۔ 2007 میں ایک کالم لکھا تھا کہ میں نے پیشہ وکالت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور میرا رجحان تب فوجداری مقدمات کی طرف تھا۔ 1985 میں حکومتی لیگ بنی تو جونیجو صاحب بھی دریافت ہوئے۔ اس دور میں اسلحہ رکھنے کے لائسنس کا کاروبار عام تھا۔ کلاشنکوف، لمبی قمیص، مجرمانہ داڑھی بھی رواج پکڑ گئی۔ پجارو کلچر اور منافقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ماحول دیا گیا کہ بہت سے لوگ دشمنی کی آگ میں جھونک دیئے گئے۔ آئے دن کلاشنکوفوں سے لوگ قتل ہوتے رہے۔ پانچ سات لوگوں کا اکٹھے قتل ہونا عام تھا اور فرقہ واریت میں خون بہنا الگ رواج بن چکا تھا۔ تب کی بوئی فصلیں ابھی کاٹی نہ گئی تھیں کہ پرویز مشرف نے ان کی مزید آبیاری کی اور دہشت گردی کی نئی فیکٹریاں لگا دیں۔ اسی دوران کئی واقعات نظروں سے گزرے، FIR پڑھیں اور متعدد مقدمات میں بطور وکیل پیش ہوا۔ مقتولین کے لواحقین سے قتل کے محرکات اور مکمل حقائق سننے کے بعد مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ تکلیف دہ منظر وہ لگتا جب لواحقین جائے وقوعہ پر یا مقتولین کی لاشوں پر آتے اور اگر کوئی زخمی ہوتا تو اس کو ہسپتال لے جاتے۔ بالکل اچانک خبر پر یوں اپنے عزیزوں کے زخمی بدن اور لاشے اٹھانا غیر معمولی ہمت کا کام ہے۔ نہ جانے ان لواحقین کی مماثلت مجھے پاکستانیوں سے کیوں لگتی ہے۔ اور نہ جانے یہ لواحقین آج اس وقت کیوں یاد آتے ہیں۔ جب میں کسی دفتر، کسی محفل کسی مسجد، کسی پارک، کسی دکان، کہیں شادی مرگ غرض یہ کہ جہاں کہیں بھی جاتا ہوں تو لوگوں کو پاکستان کے موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی تدبیروں سے لیس پاتا ہوں۔ اس ملک کے بے قصور اور مجبور لواحقین سوچ رہے ہیں، بول رہے ہیں کوئی جرائم کنٹرول کرنے کے طریقے بتا رہا ہے، کوئی قانون کی حکمرانی کی تدبیریں لا رہا ہے، کوئی معیشت کی بحالی کیلئے راہیں نکال رہا ہے، کوئی دہشت گردی کی وجہ اور علاج بتا رہا ہے، کوئی بے راہ روی، قانون شکنی اور جسم فروشی کے تدارک پر زور دے رہا ہے، کوئی اسلامی نظام معیشت میں نجات بتا رہا ہے۔ غرض یہ کہ بے چارے ذلتوں کے مارے لوگ خود کلامی، چڑ چڑے پن، انجانے خوف میں مبتلا ہو کر ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ ان کا حکومتی معاملات میں ذرہ برابر بھی حصہ نہیں۔ یہ صرف پاکستان کے لواحقین ہیں۔ ادھر جو لوگ پُرسان حال نظر آنے چاہئیں وہ نئے جال اور نئی بساط کی فکر میں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ واردات کے ذمہ دار اپنے اپنے وقت میں ڈالروں میں ارب پتی ہوئے اور مشیر اور وزیر ٹھہرے ناجانے کیوں مجھے پاکستان کے حکمران طبقوں کی مماثلت حملہ آوروں سے لگتی ہے جو قتل کر کے فرار ہو گئے اور حقیقی لواحقین عوام آج تڑپتا ہوا لاشہ اٹھانے یا شدید زخمی کو بچانے کی تدبیر میں مبتلا ہیں۔ یہ جو بے اختیار اور اذیت کے مارے لوگ، ہرلٹیرے سے امید رکھنے والے، ہر غاصب کو مسیحا سمجھنے والے لاچار پاکستان کے لواحقین ہیں۔ ان کو اپنے اور اپنے ملک کے قاتلوں کو پہچاننا ہو گا۔ مگر بہروپیے روپ بدل بدل کر آتے رہے آج نعمتوں سے بازار اٹے پڑے ہیں مگر لوگوں میں قوت خرید نہیں، حکومت عوام کے مسائل حل کرتی ہے لیکن ہم اپنا اقتدار اعلیٰ ہی دھیرے دھیرے قسطوں میں گروی ہی نہیں فروخت کر چکے ہیں۔ صرف ایک حکمران آیا تھا جن کے دور میں اقتدار اعلیٰ آزاد تھا جو ذمہ داری لیتے تھے جنہوں نے 5 سے کچھ زائد عرصہ میں وطن عزیز اور قوم کو عزت دار اقوام میں لا کھڑا کیا مگر ان کو سولی چڑھا دیا گیا۔ وہ خود کہتے ہیں، میرا خیال تھا مجھے قتل کیا جائے گا، گولی جاری جائے گی مگر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ (امریکہ کی نگرانی) اور اس وقت کی ملکی اسٹیبلشمنٹ (ضیا کی نگرانی) نے یہ کام اداروں کے ذریعے کرایا جس میں تمام ادارے شامل تھے البتہ کالک عدلیہ نے صرف آگے بڑھ کر اپنے چہرے پہ ملی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔ شاید ہماری عدلیہ کے مقدر میں انصاف ہے ہی نہیں وہ اس لیے کہ انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات بلکہ صحافتی اور سیاسی اختیارات بھی اپنے اندر سمیٹا چاہتی ہے آج حالت یہ ہے کہ عام شخص بلکہ کل میرے پاس ایک شخص جو پرائیویٹ ڈرائیور ہے آیا اور کہنے لگا کہ سر میں نے تاریخ میں کسی جج کو اتنی جانبداری کرتے نہیں دیکھا جتنی موجودہ دور میں دیکھی ہے۔ عمران نیازی پروجیکٹ سیاستدانوں کی دشمنی اور اپنی حکومت کے لیے جن لوگوں نے لانچ کیا شاید ان کا خیال ہو کہ یہ مسائل حل کر دے گا یا ملک مزید آگے جائے گا، مگر وہ خود مسئلہ بن گیا اور مسئلہ بھی اس کا جھوٹ، نا اہلی اور کرپشن ہے اس کے کسی حامی سے کوئی صفت پوچھو، نظریہ پوچھو تو نواز شریف کو گالیاں دینا شروع کر دیں گے، زرداری کو مغلظات بولیں گے موصوف کی کوئی خوبی نظریہ یا کارنامہ نہ بتا سکیں گے۔ ملک کے جو حالات ہیں پٹرول، بجلی اور حکمرانوں کی بے بسی جس مقام پر ہے اگر عوام کے مسائل حل نہ کیے، احساس نہ کیا، دکھوں کا مداوا نہ بنے، زیادتیوں کا ازالہ نہ کیا تو 2007 میں تو لکھا تھا انقلاب کی دستک تب عوامی لیڈرشپ موجود تھی اور مشرف بوجھ بن چکے تھے۔ آج لیڈر شپ نہیں اور مسائل وطن عزیز کے وجود سے بڑے ہیں۔ جب مسائل ہوں اور لیڈر شپ ہو تو انقلاب آتا ہے اور اگر لیڈر شپ نہ ہو تو انارکی آتی ہے۔ انارکی دستک نہیں اب دروازہ توڑ چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے جس کی بنیاد پنجاب میں انتخابات ہیں جبکہ کے پی کے میں بھی اسمبلی ساتھ ہی تحلیل ہوئی تھی لگتا ہے 1973 کا آئین پاکستان نہیں پنجاب کا آئین بن کر رہ گیا۔ جب ملک کے اندھی تقلید رکھنے والے ایک لیڈر اور اس کی جماعت بیرون ملک اور اندرون ملک پاکستان کو دیوالیہ، ایک دن ایک لمحے میں تباہ کرنے کے متمنی ہوں تو پھر کیا ہو سکتا ہے آج قطری، سعودی، چینی دوستی اور خیر خواہی کے حوالے سے جبکہ امریکی، یہودی، ہندو، مرزائی دہشت گردی اور بدخواہی کے حوالے سے وطن عزیز میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ 90 دن میں مسائل حل کرنے والا ملک کو مسائلستان بنا گیا اور خود مسئلہ بن گیا۔ نواز شریف کی پارٹی (پنجاب میں) مقبول ترین جماعت ہے۔ مگر اِس جماعت کی مقامی قیادتوں کا لوگ چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ گوجرانوالہ میں لوگ ہیں، اللہ موت دے دے مگر کسی سیاسی جماعت کے مقامی لیڈر سے واسطہ نہ پڑے۔ عمران تو مانگے تانگے کے لوگ تھے یا پھر دلیل سے عاری جنونی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کیا گیا وہ اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے نواز شریف کے مخالف ووٹ عمران کو ملے، اب مکافات عمل میں ووٹ بینک پیپلز پارٹی کا ہوا تو مقابلہ بن جائے گا۔ لیکن یہ باتیں ہیں تب کی جب کوئی بنیادی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد ان کے بارے میں کچھ سوچے گا ورنہ ان کی لوگوں کے دکھوں کے سامنے کوئی وقعت نہیں۔ حالات شدید ترین خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ ڈکیتی، چوری عام ہے اور بین الاقوامی ملک دشمن قوتیں سرگرم ہیں۔ عوام کو خود پتہ نہیں چلے گا کہ وہ استعمال ہو گئے لہٰذا انارکی دستک ہی نہیں دروازہ توڑ چکی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.