ملک میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ لوگ 15 پر کال کر کے دو وقت کی روٹی مانگ رہے ہیں، کل اسی طرح کی ایک کال میں گوجرانوالہ میں بھوک اور افلاس سے تنگ 12سالہ بچی نے پولیس سے مدد مانگی کہ اس کے والد ٹریفک حادثہ میں زخمی ہو گئے ہیں۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھوکے ہیں۔ تو اس بچی کی مدد کیلئے ایس ایچ او پہنچ گیا۔ ایس ایچ او نے کہا کہ میری جیب میں جتنے پیسے تھے راشن لے کر بچی کے گھر دے آیا ہوں، بچی سے پوچھا کہ پولیس ہیلپ لائن پر کال کرنے کا خیال کیسے آیا، جس پر اس نے بتایا کہ اس نے ٹی وی پر دیکھا تھا کہ پولیس والے راشن دے رہے ہیں۔ یہ خبر سن کر یقین مانیں میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، سوچا کہ کیا یہ واقعی ایک زرعی ملک ہے، جہاں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہے، جہاں اس وقت گزشتہ چند سال سے غذائی قحط بھی پڑا ہوا ہے تبھی گندم کے نرخ ہمسایہ ممالک سے دوگنا ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی مہنگائی ہوتی رہی ہے مگر اس بار کی مہنگائی ایسی ہے کہ عام آدمی فاقہ کشی پر مجبور ہو گیا ہے۔ لوئر مڈل کلاس کے لوگ اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں یہ لوئر مڈل کلاس وہی ہے جسے کبھی مڈل کلاس کہا جاتا تھا انہیں "لوئر” اس لیے کہنا پڑا کہ آج کی مڈل کلاس تو کروڑوں میں کھیلتی ہے۔ بہرحال آپ کہیں بھی چلے جائیں عوام آپ کو سخت پریشان نظر آئیں گے۔ رہتی کسر بجلی کے حالیہ بلوں نے نکال دی ہے، شہر شہر، گاؤں گاؤں احتجاج ہو رہے ہیں۔ لوگ سول نافرمانی کی طرف جا رہے ہیں مگر مجال ہے فیصلہ کرنے والے ٹس سے مس ہو رہے ہوں۔ عوام کی بدعائیں نگرانوں کو لگ رہی ہیں نہ آئی ایم ایف کو اور نہ ہی کسی اور کو۔ نگران حکمرانوں نے غریبوں کو ایک اُمید دلائی اور گزشتہ شب اجلاس منعقد کر ڈالا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ کچھ نے دانتوں میں انگلیاں دبا کر اور کچھ نے بغلیں بجا کر اجلاس ختم کر دیا۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 43 فیصد مہنگائی جبکہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ مزید بڑھے گی۔ جبکہ روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں بھی کنٹرول سے باہر ہو جائیں گی۔ اب اگر گندم مہنگی ہے تو غریب آدمی کیا کرے گا! چلیں چینی مہنگی ہے تو وہ گزارا کر لے گا، مگر گندم اور روزانہ کی اشیا کا کیا کرے گا؟ بجلی، پیٹرول کا کیا کرے گا؟ وہ ڈکیتی، راہزنییا ہیرا پھیریاں نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ میرے گھر میں فاقے ہوں اور میں خاموشی سے گھر بیٹھ کر موت کا انتظار کروں …… چلیں یہ بھی مان لیا کہ میں موت کا انتظار کر سکتا ہوں …… لیکن آپ اپنے بچوں کا کیا کریں گے؟ یعنی میرا بچہ سکول نہیں جا رہا تو چلیں میں گزارا کر لوں گا، اگر وہ اچھے کپڑے نہیں پہن رہا تو میں گزارا کر لوں گا، لیکن اگر روٹی نہیں کھائے گا، یا وہ بیمار ہے تو اسے دوا نہیں ملے گی اور وہ مر رہا ہو گا تو پھر میں یقینا کسی کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ اس حوالے سے آپ کو علم ہے جنگل کا قانون کیا کہتا ہے؟ جنگل میں جب کسی جانور کا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو وہ اس کی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے کیا کسی کو چیرنے پھاڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے؟ نہیں ناں! یہی حال پاکستانیوں کا ہو چکا ہے۔ لہٰذا آج حکمران پاکستان کو اس نہج پر لے آئے ہیں جہاں محض ایک چنگاری چاہیے ہوتی ہے پورے سسٹم کو خاکستر کرنے کے لیے۔ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ سول نافرمانی کریں۔ اس کے لیے وہ ہر ہربہ استعمال بھی کر رہے ہیں اور چیک بھی کر رہے ہیں کہ عوام کی برداشت کا پیمانہ کیا ہے! یقین مانیں اس وقت ہم پہلے ہی دنیا بھر میں بدنام ترین قوم بن چکے ہیں، ہم تعلیم میں آگے جا رہے ہیں نہ ریسرچ میں آگے ہیں اور نہ ہی ہم دنیا کے کسی کام آ رہے ہیں۔ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ اس وقت دنیا بھر کی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ زیادہ تر انسانی اور منشیات کی سمگلنگ میں پکڑے جاتے ہیں۔ بزنس میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ جبکہ ہم پاکستانیوں کا اس میں حصہ 69فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ خیر! بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، اوپر سے وہ تمام اشیائے خورنی جو روز مرہ استعمال کی ہیں وہ عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لیے زندگی دشوار ہو گئی ہے۔ قوتِ خرید ہو یا قوتِ برداشت، دونوں ہی حکمرانوں کے ہاتھوں میں دَم دے چکے ہیں۔ بھوک اقتدار کی ہو یا مال و زر کی، بھوکے کو بے حال کیے رکھتی ہے۔ بہرکیف مملکتِ خداداد میں 75برس سے لگے تماشے کا جائزہ لیں تو کھیتی صرف عوام نے ہی کاٹی ہے۔ حکمرانوں کی لگائی ہوئی کھیتیاں کاٹتے کاٹتے اب تو ہاتھ بھی لہو لہان ہو چکے ہیں بالخصوص دو خاندان ڈیڑھ درجن سے زائد مرتبہ حکمرانی کے ادوار میں وطنِ عزیز کی عمرِ عزیز کا نصف سے زائد عرصہ کوڑھ کاشت کرتے رہے ہیں، وہ کوڑھ اب جا بجا ہر سُو دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ کھیتی کاٹنے کے بجائے یہ نئی فصل ہی لگاتے چلے گئے ہیں اور ان سبھی فصلوں کو کاٹتے کاٹتے عوام کی کتنی ہی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں۔ لہٰذا اگر حکمران اور فیصلہ کرنے والے ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں تو ان کی خواہش خدانخواستہ جلد پوری ہو جائے گی اور پھر کچھ بھی قابو میں نہیں رہے گا!
Next Post
تبصرے بند ہیں.