استحکام پاکستان پارٹی کا منشور

123

سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھتے ہوئے میری عمر گزر گئی اور مجھے اعتراف کرنا ہے کہ میں نے آج تک ’استحکام پاکستان پارٹی‘ سے بہتر منشور کسی کا نہیں دیکھا۔ آئی پی پی وعدہ کر رہی ہے کہ وہ مزدور کی کم از کم تنخواہ پچاس ہزار روپے کر دے گی۔ ساڑھے بارہ ایکڑ تک کے مالک کسانوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کے لئے تین سو یونٹ تک بجلی مفت ہو گی۔ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دئیے جائیں گے اور شہروں میں کم لاگت کی اپارٹمنٹ بلڈنگز تیار کی جائیں گی۔ منشور کے مطابق موٹرسائیکلوں کو آدھی قیمت پر پٹرول فراہم کیا جائے گا جبکہ ائیرکنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ میں بزرگوں اور خواتین کومفت سفری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اسلامی معاشرے اور روایات بالخصوص ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ ہو گا اور مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا اور اندرون ملک عدلیہ، پولیس اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
ہمارے پی ٹی آئی کے وہ دوست جو کہا کرتے تھے کہ پاک فوج کے حق میں بات کرنے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے آج کل غیر معمولی جمہوری اور انقلابی ہو رہے ہیں، وہ سیاسی وفاداریوں کے بھونپو بنے ہوئے ہیں اور ان کے پیٹوں میں انسانی حقوق کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک انقلابی دوست نے منشور دیکھا تو قہقہہ لگایا اور پوچھا،تمہیں وہ اشتہار یاد نہیں آیا جس میں ایک شخص کو نوکری کے لئے بلایا گیا اور کہا گیا کہ تمہاری ایک لاکھ روپے تنخواہ ہوگی اور ڈیوٹی صرف سوچنا ہوگا۔ اس شخص نے نوکری دینے والے حالات دیکھے تو ترنت سوال کیا کہ تم یہ تنخواہ مجھے کہاں سے دو گے۔ نوکری آفر کرنے والا شخص مسکرایا اور بولا، تمہاری ڈیوٹی یہی سوچنا ہے کہ تمہیں تنخواہ کہاں سے دینی ہے۔ میں نے اپنے اس دوست کو جواب دیا کہ اگر یہ منشور جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی پارٹی کا نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارے ساتھ قہقہہ لگاتا، اس کا مذاق اڑاتا مگر یہ منشور ایسے اشخاص کا ہے جو نہ صرف خود سیلف میڈ ہیں بلکہ انہوں نے عمران خان کو بھی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والا عمران خان بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں کہ مقتدر حلقوں کے علاوہ اگر جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان عمران خان کے ساتھ نہ ہوتے تو موصوف کی سیاسی حیثیت وہی ہوتی جو سیاست کے پہلے پندرہ برس تھی یعنی خود ہی ایم این اے بن گئے تویہی بہت بڑا چھکا ہے۔میرے دوست کا اگلا اعتراض تھا کہ آئی پی پی کنگز پارٹی ہے، اس کو عوام ووٹ نہیں دیں گے تو اس پر جواب میں میرا قہقہہ تھا کہ اگر پی ٹی آئی کنگز پارٹی ہو تو عوام اسے ووٹ دیتے ہیں، اس سے پہلے اگر نواز لیگ کنگز پارٹی بنے تو وزارت عظمیٰ اسے ملتی ہے اور بہت پہلے اگر ذوالفقار علی بھٹو، مجیب الرحمان کے مقابلے میں کنگزپارٹی بنتے ہیں تو پاکستان آدھا کر کے بھی اقتدار لے جاتے ہیں لیکن اب آئی پی پی کنگز پارٹی بنے تو اسے ووٹ نہیں ملیں گے،سوال ہے کیوں؟ایسی بات کہنے والے ووٹروں کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے مغالطے کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بچے بچے کو فوج سے محبت ماں کے دودھ اور نصاب کی کتب میں گھول کے پڑھائی جاتی ہے۔ فوج کے خلاف جانے والوں کو ہمیشہ مسترد کیا گیا ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے دیوار میں بار بار ٹکریں مارنے کے بعد سیکھا ہے۔
میرا انقلابی دوست پھر ہنسا اور بولا، کم از کم تنخواہ پچاس ہزار روپے کیسے ہوسکتی ہے، یہ ناممکن ہے کہ اس وقت بھی سیکورٹی گارڈز سے سیلزمینوں تک پندرہسے پچیسہزار روپے ہی لے رہے ہیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر یہ منشوراس پارٹی کا نہ ہوتا جس کا صدر عبدالعلیم خان ہے تو میں ضرور اس پر شک کرتا۔ عبدالعلیم خان ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں اور ان کے جس کاروبار سے میں آگاہ ہوں وہاں ہیلپر ہو یا ڈرائیور، اس کی کم سے کم تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے جبکہ کئی ایسے ہیں جن کی تنخواہیں پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہیں۔ اگر ایک لیڈر خود ایک مثال قائم کر سکتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی راہ دکھا اور سکھا سکتا ہے اور جہاں تک ساڑھے تین سو یونٹ بجلی مفت ہونے کا سوال ہے تو سو یونٹ مفت کرنے پر حمزہ شہبازکی کچھ ہفتے رہنے والی حکومت نے کام کیا تھا۔ سیکرٹری انرجی اور چئیرمین پی اینڈ ڈی نے ہم کچھ صحافیوں کواس پر بریفنگ دی تھی اورمیں حیران رہ گیا تھا کہ یہ چند ارب روپے کی سب سڈی ہے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آپ گھروں کے لئے تین سو روپے یونٹ بجلی مفت کر دیں گے تو اس کی کل لاگت اس برس آٹے کی صرف پنجاب میں دی گئی پچپن، ساٹھ ارب روپوں کی سب سڈی سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا بھی کوئی بڑی با ت نہیں۔ لاہور کی کچی آبادیوں کے مکین اب تک عبدالعلیم خان کی طرف سے صوبائی وزیر کے طور پر دئیے گئے مالکانہ حقوق کو یاد کرتے ہیں۔ میں نے ترکی کے شہر استنبول میں بلدیہ کی طرف سے بنائی گئی کم لاگت ہائی رائزڈ بلڈنگز دیکھی ہیں اور یہ کام وہ بندہ بخوبی کر سکتا ہے جس کا ہاوسنگ کے شعبے میں تجربہ ہو یعنی یہ بات بھی بغیر تجربے اور بغیر بنیاد کے محض ہوا میں نہیں ہے۔
مفت بجلی ہو یامفت پبلک ٹرانسپورٹ، یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہمسایہ ملک میں عام آدمی پارٹی کے کجری وال یہ سب کچھ دلی کے لوگوں کے لئے کرچکے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک ماڈل موجود ہے اور ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس ماڈل پرعمل کرنے والی قیادت ہو جو یہ سب کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ عدلیہ، پولیس اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات پوری قوم کا مطالبہ ہیں۔ منشور میں عوامی دینی نفسیات کا بھی خیال رکھا گیا ہے یعنی آئی پی پی ہمیں لیفٹ کی بجائے سنٹر رائیٹ کی جماعت کے طور پر نظر آتی ہے۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور اس کی باگ دوڑ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں آتی چلی جارہی ہے۔ روایتی حکمران ’ڈسکارڈ‘ ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک کا ماضی بھی یہی بتاتا ہے کہ جاگیرداروں کے مقابلے میں صنعتکارترقی اور جدت کے زیادہ بڑے نقیب ہیں۔ ہمارے ملک کے دوبنیادی مسائل ہیں، پہلا وسائل کی فراہمی اور دوسرا ان وسائل کا درست استعمال۔ میں نے سیلف میڈ لوگوں کو زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر ہم ان پر اعتماد کرنا شروع کر دیں تو پرائیویٹ کے ساتھ ساتھ پبلک سیکٹر میں بھی بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کا منشور واقعی زبردست ہے مگریہاں دو سوال ہیں، اول یہ کہ کیا وہ اسے عام آدمی تک پہنچا پائیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ اسے اعتماد دلا پائیں گے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں؟

تبصرے بند ہیں.