"انسانی حقوق کی آڑ میں۔۔”

70

میں اکثر دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا انسانی حقوق صرف چوروں، ڈاکووں، قاتلوں، زانیوں، دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے ہی ہوتے ہیں اور کیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے جو قتل ہوجائیں، جن کی عزتیں لوٹ لی جائیں، جو دہشت گردی کا نشانہ بن جائیں اور جو اپنے وطن میں امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہوں۔ یہ عجب فکری مظالطے ہیں اور دانشورانہ بددیانتیاں ہیں۔ مجھے ایک ایسے ہی ہیومن رائٹس کنونشن میں مدعو کیا گیا جس میں عوام کا مینڈیٹ لوٹ کر اقتدار میں آنے والے جمہوریت کا سبق پڑھا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر غلاظت پھیلانے والے اخلاقیات سکھا رہے تھے۔ باہر سے لائے ڈالروں سے پاکستان میں عدم استحکام کے لئے سرگرم ملک کے لئے ’ناؤ اور نیور‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ ان پیسوں والوں کے دماغ خراب ہوچکے ہیں جیسے خدیجہ شاہ نامی خاتون کا جب وہ کور کمانڈر ہاوس پر حملہ آور ہوئی تو باوثوق ذرائع کے مطابق گرفتاری کے وقت اس کے پاس سے پانچ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم برآمد ہوئی جو اس وقت پاکستانی روپوں میں چودہ سے پندرہ کروڑ روپے بنتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی پوری زندگی کمانے کے بعد اس کے د س فیصد کا بھی مالک نہیں ہوتا۔ انہیں ڈالروں والوں نے گلبرگ کے ایک ہوٹل کی ستارہویں منزل پر محفل سجائی گئی تھی جس میں اپنے ہی ملک اور اپنے ہی اداروں کے خلاف زہر کو انسانی حقوق کی چاشنی میں ڈبو کے پیش کیا جا رہا تھا۔ مجھے وہاں وائے ڈی اے کے ایک دوست رہنما نے شرکت کی دعوت دی تھی مگر وہاں مخصوص شرکا تھے، ذومعنی تقاریر تھیں، خفیہ ایجنڈا تھا۔
آزادی کی تعریف اور انسانی حقوق کے موضوعات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ یکطرفہ اور مادر پدر آزاد تصورات نہیں ہیں۔ ہر آزادی اپنے ساتھ ذمے داری لے کر آتی ہے اور جتنی بڑ ی آزادی ہوتی ہے اتنی ہی بڑی ذمے داری بھی۔ آپ اپنا ہاتھ ہلانے کے لئے آزاد ہیں مگر آپ کی ذمے داری ہے کہ وہ ہاتھ میرے گال سے نہ ٹکرائے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ خود دوسروں کو تھپڑ مارتے پھریں اور جب آپ کو تھپڑ پڑے تو آپ کو اپنے حقوق یاد آجائیں۔ تھپڑ کا بدلہ تھپڑ ہی ہے اوریہی انسانی حقوق کا اصل خلاصہ ہے۔ اگر آپ تھپڑ کے جواب میں تھپڑ نہیں مارتے تو آپ انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں اور یہی اصول اسلام کا ہے۔ وہ ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال پیش کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ اسلام عین دین فطرت ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کاٹنے کاحکم دیتا ہے۔اسلام دین رحمت بھی ہے اورکہتا ہے کہ اگر تم معاف کر دو تو تم افضل ہو، بہتر ہو، رب کے پیارے ہو۔ ’ناؤ اور نیور‘ کا نعرہ لگانے والے اپنے نعرے کی ’کھوکھلیت‘ سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ خود کو غیر سیاسی کہہ رہے تھے مگر ان کے ایک ایک فقرے سے مکروہ سیاست ٹپک رہی تھی۔ وہ بھرپور منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں اعتراف کر رہے تھے کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے وہاں کہہ رہے تھے کہ اب ہم خاموش نہیں رہ سکتے، اب ہم صرف سوشل میڈیا کی پوسٹس نہیں کرسکتے۔ وہ ڈالر خرچ کر رہے تھے اوریقینی طور پر کوئی بھی اپنی حلال کی کمائی سے منافعے کے بغیر ایسی انویسٹمنٹ نہیں کرتا۔ اس سرمایہ کاری کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ سب نو مئی جیسے واقعات کے سہولت کار ہیں، انہیں بچ کے نہیں جانا چاہئے۔
ایک وزیراعظم کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اتارا گیا۔اس کے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ اس کو آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی نفی قرار دیتے ہیں مگر یہی وہ لوگ تھے جب ایک ایسے منتخب وزیر اعظم کو جس نے ملک کو لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی جیسی عفریتوں سے نجات دلائی، جس نے موٹرویز اور سی پیک جیسے شاندار انفراسٹرکچرز کا جال بچھا دیا، جس نے افراط زر کو قومی تاریخ کی کم ترین سطح پر رکھا اور جی ڈی پی گروتھ کو اسی تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے گیا جب کٹھ پتلی منصفوں کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا جا رہا تھا، جب تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم ہی نہیں بلکہ اس کے بھائی، بیٹی، بھتیجوں سمیت پورے خاندان کو جیل میں رکھا جا رہا تھا تب انہیں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آتی تھی۔ تب یہ امریکا میں ایک کم ظرف کے منہ سے’میں نواز شریف کی جیل سے اے سی اتار لوں گا‘ جیسی گھٹیا باتیں سن کے تالیاں بجایا کرتے تھے۔ آج انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں جب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ امریکی سائفر سیاسی مقاصد کے لئے محض ایک سازش تھا۔ جب یہ ثابت ہورہا ہے کہ توشہ خانہ سے چرائی ہوئی چیزوں پر جعلی رسیدیں بھری گئی ہیں۔ جب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ میں ناجائز بیٹی کا باپ پاکستان میں بھی غیر شرعی نکاح کرتا ہے۔ جب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ محض اپنے اقتدار کے لئے نومئی کو اداروں پر اس طرح حملہ کیا گیا جس طرح انڈیا بھی ستر برس سے زائد کے دوران اربوں، کھربوں خرچ کر کے نہ کر سکا۔ اسی لئے میں نے پوچھا ہے کہ کیا انسانی حقوق ڈاکووں، زانیوں، نوسربازوں اور ملک دشمنوں کے ہوتے ہیں؟ وہ خود کو اصحاب الیمین کہہ رہے تھے یعنی نیک اور مقرب لوگ اور اپنے مخالفین کو اصحاب الشمال یعنی برے اور مغضوب لوگ۔
مجھے یاد ہے کہ ایک ڈی آئی جی میرے پروگرام میں آئے اور ہم ایک ملزم کو ڈسکس کر رہے تھے جس نے اپنی محلے دار بچی کے ساتھ ریپ کیا اور پھر اسے مردہ حالت میں گنگارام ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر چھوڑ کے بھاگ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر ہم روایتی عدالتی طریقے سے چلتے ہیں تو اس کیس کا فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جائیں گے اور اگر ملزم کے پاس پیسے ہوئے تو وہ کوئی چالاک وکیل کروا کے باہر آجائے گا۔ وہ اعداد وشمار پیش کررہے تھے کہ ماتحت عدالتوں سے سزا ہوبھی جائے تو اس امر کی خوفناک شرح ہے کہ وہی مجرم اپیلیٹ کورٹس سے بری ہوجاتے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ اگر اس کے ساتھ کچھ ہو گیا تو آپ احتجاجی پروگرام تو نہیں کریں گے کیونکہ آپ کی آواز اوپر تک سنی جاتی ہے اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی ملزم کے فئیرٹرائل کے حق کے خلاف نہیں ہوں مگریہاں شرط فئیر ٹرائل کی ہے۔ میرا جواب تھا کہ انسانی حقوق صرف اس زانی اور قاتل کے نہیں ہیں، اس معصوم بچی کے بھی ہیں جس کا حق تھا کہ اسے ایک ہنستی کھیلتی محفوظ زندگی ملے، اس کے والدین اور بہن بھائیوں کے بھی ہیں جنہوں نے اسی معاشرے میں زندگی گزارنی ہے اور اگر وہ مجرم کچھ عرصے بعد یہیں دندناتا نظر آیا تو کیا وہ پرامن زندگی گزارنے کا حق استعمال کر سکیں گے۔ میں بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ ظالموں، غاصبوں اور درندوں کے لئے انسانی حقوق کے نعرے کا استعمال خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں انسانی حقوق پامال کرنے والوں کامقدمہ لڑنا انسانی حقوق کا قتل ہے۔

تبصرے بند ہیں.