سراج الحق بہت سارے دکھی اور پریشان لوگوں کے لئے ایک دوست، ایک مسیحا ہیں جیسے سرکاری ملازمین۔پنجاب کے وہ سرکاری ملازمین جو کئی دنوں سے خود سے ہونے والی زیادتیوں پر سراپا احتجاج ہیں ان کے پاس صرف قومی رہنماوں میں سے صرف سراج الحق ہی پہنچے ہیں۔ بہت سارے معاملات ہیں جن میں جماعت اسلامی ایک نعمت ہے جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سود کے خلاف ایک طویل جدوجہد۔ سراج الحق او رجماعت اسلامی نے ایک طویل جدوجہد کے بعدعدالتی جنگ جیتی ہے اور اب مرحلہ عملدرآمد کا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈار سود کے ہرگز ہرگز حمایتی نہیں ہیں۔میں یقین کا اظہار کر سکتا ہوں کہ میاں محمد شریف کا بیٹا اورنواز شریف کا بھائی اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں اسحق ڈار کو روزانہ ایک قرآنی آیت ٹویٹ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ میرا یہی گما ن پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کے حوالے سے ہے کہ ان کے ایمان پر شک نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح مولانا فضل الرحمان، جو برسراقتدار اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک جید دینی رہنما ہیں۔ میں جماعت اسلامی کی حرمت سود کے حوالے سے کانفرنس میں شریک تھا جہاں سراج الحق ان سب سے شکوہ کر رہے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کا شکوہ بنتا ہے مگر یہاں کچھ سوالات بھی ہیں۔میں اپنی بات کہنے سے پہلے واضح کر دوں کہ کسی کو میرے ایمان پر شک کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کفر کے فتوے لگانے کی۔ قرآن نے اگر سود کو حرام قرار دیا ہے تو یہ حرام ہے لہذا اس کے سامنے کوئی منطق اور کوئی دلیل نہیں چل سکتی مگر بطور صحافی میں معاملات کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہوں، پہلا حصہ عین کتابی اور نظریاتی ہے اور دوسرا حصہ عملی۔ میں ماہر معیشت نہیں ہوں اور جب بہت سارے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ زیرو انٹرسٹ کے ساتھ معیشت اور کاروبار کو چلایا جا سکتا ہے تو میرے پاس کوئی ایسی ڈگری اور تجربہ نہیں کہ میں ان کے استدلال کو جھٹلا سکوں مگر میرے پاس کچھ سوالات موجود ہیں اور اہل علم کو ان کے جواب ضرور دینے چاہئیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور میری نیت یہ ہے کہ میں کتابی باتوں اور نعرے بازی سے نکل کر واقعی میں انٹرسٹ فری اکانومی کے نفاذ میں کردار ادا کر سکوں مگر اب یہ کام محض کانفرنسوں اور روایتی تقریروں سے نہیں ہوسکتا۔ میرا سب سے پہلے سوال تو یہی ہے کہ سود صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے کہ مسلمان صرف پاکستان میں نہیں رہتے۔ یہ مسئلہ سعودی عرب سے ایران تک ہرمسلک والے کاہے پھر غیر سودی نظام بارے ہم ہی کیوں بات کرتے ہیں باقی تمام مسلمان ممالک جن کے پاس ہم سے زیادہ وسائل بھی ہیں اور ہم سے زیادہ علم بھی، وہ اپنی معیشتیں کیسے چلا رہے ہیں۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ لاہور کے کسی ہوٹل یا شادی ہال میں مل بیٹھ اور قرآنی احکام کو دہرا کے حل نہیں ہوسکتا، اس پر عالمی سطح کے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سود سے انکار کے بعد بیرونی دنیا سے کاروبار کس اصول پر ہوگا؟
کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ تاجروں پر ٹیکس غیر اسلامی ہے، اسلامی ٹیکس صرف دو ہیں ایک زکواۃ اور دوسرے عشر۔ کہا گیا کہ ایک ہزار ارب کی زکواۃ اکٹھی ہوسکتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس منطق کے ساتھ ہم مسئلے کو کیسے حل کرسکتے ہیں۔ میں جامعہ اشرفیہ کے مفتی اعظم کامشکورہوں کہ انہوں نے اسی وقت اصلاح کر دی کہ زکواۃ کے مصارف تو طے شدہ ہیں اور میرا سوال یہی تھا کہ جدید ریاست کے مسائل اورمعاملات بہت پیچیدہ ہوچکے، ہم زکواۃ سے سکول، ہسپتال اور سڑکیں کیسے بنا سکتے ہیں۔ ہم زکواۃ سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکتے، نہ ہی اس سے دفاع کے اخراجات ہو سکتے ہیں۔ ایک اور بات کہی گئی اور بار بار کہی گئی کہ سود سے بربادی، نحوست اور تباہی ہے، گستاخی معاف، جن غیر مسلم ممالک میں سود کی مخالفت تک نہیں ہے وہ تمام ممالک تو بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں، ان کے عوام کی فی کس آمدن ہم سے بہت زیادہ ہے، ان کے بے روزگاروں کو بھی بھاری الاونسز ملتے ہیں مگر ہم جو سود کو حرام سمجھتے ہیں ہماری معیشت تباہ ہے سومیرے خیال میں سود سے بھی بڑی خرابی ہمارے معاملات میں ہے۔ ان ممالک کے عوام کا ٹیکس جی ڈی پی کی تیس سے پینتالیس فیصد تک پہنچا ہوا ہے مگر ہمارا دس فیصد بھی نہیں ہے۔ ہم سب ٹیکس چور ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر چور ہیں۔ جن تاجروں سے زکواۃ لینے کی بات کی جار ہی ہے ان میں سے ننانوے فیصد ریٹرنز ہی نہیں بھرتے۔ ہمارے ہاں نحوست اس وجہ سے ہے کہ دوسروں سے زیادتیاں کرتے ہیں، ان کے حق مارتے ہیں، مزدور کو اس کی تنخواہ پوری نہیں دیتے اور سارا زور حجوں کے ذریعے گناہ بخشوانے پر ہے، بھلا رب بندوں سے کی ہوئی زیادتیاں کب معاف کرتا ہے، ان کی سزائیں ملتی ہیں جیسے ہمیں ملیں۔
میں نے پوچھا کہ فرض کریں میں ایک بوڑھا ریٹائرڈ شخص ہوں، میرے زندگی بھرکی بچت ایک آدھ کروڑ روپیہ ہے۔میرے پاس تجربہ اور صلاحیت بھی نہیں کہ میں کوئی کاروبار کرسکوں اور میں اس رقم کوآپ کے کہنے پر کسی فکس انکم یا فکس پرافٹ پر رکھنے کی بجائے نفع و نقصان کی بنیا د پرمعاہدہ کر لیتا ہوں اور دوسرا بندہ سال بعد ہی میری ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھا کے مکمل نقصان ظاہر کردیتا ہے تو میں کس کے پاس جاوں گا او ر کس سے اپنی رقم مانگوں گا۔ معذرت کے ساتھ آپ کی تجویز نوسر بازوں کی چاندی کر دے گی کیونکہ میرے پاس کوئی ایسا معاہدہ ہی نہیں ہوگا جس سے میں اپنی رقم کا تحفظ کرسکوں اوراگر آپ اسلامی بینکاری کی بات کرتے ہیں تو اس کے لئے مجھ سے ایک لطیفہ نما واقعہ سن لیجئے، چاہے اسے گھڑا گھڑایا ہی سمجھیں مگر یہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ کہتے ہیں، ایک مولوی صاحب کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکاگیا، دوہزار کا چالان تھا جبکہ پانچ سو روپے رشوت۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں دو ہزارکاچالان نہیں کرواوں گامگر یہ بھی ممکن نہیں کہ تمہیں پانچ سو روپے رشوت دے کر جہنمی ہوجاوں۔ ٹریفک وارڈن حیران ہوا اوربولا، پھر آپ کیا کریں گے۔ جواب ملا، میری یہ گھڑی دس ہزار روپے کی ہے اور میں تمہیں یہ پانچ ہزار میں بیچتا ہوں، بولو، سودا منظور ہے۔ وارڈن بہت خوش ہوا اوربولا منظور ہے، دیجئے گھڑی۔ مولوی صاحب مسکرائے، بولے، ٹھہرو، ہمارا سودا ہو گیا اور اب یہ گھڑی تمہاری ہو گئی۔ اب اگلا سودا کرتے ہیں کہ اب میں یہی گھڑی تم سے واپس پانچ ہزار پانچ سو میں خریدتا ہوں کیا تم اس کے لئے تیار ہو۔ وارڈن ایک لمحے کے لئے چکرایا اورپھر اسے ساری گیم سمجھ آگئی۔ اس نے عین اسلامی طریقے سے گھڑی کی خریدوفروخت کا کاروبار کیا اور پانچ سو روپے رشوت کی بجائے منافعے میں وصول کر لئے۔
مجھے ان سوالوں کے جوابوں کا انتظار ہے۔مجھے بہت ہی محترم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب نے مائیک پر کہا کہ میں انہیں اپنے پروگرام میں بلاوں اور وہ تمام سوالوں کے جواب دیں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.