مخالفت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے یہ تو نہیں کہ اگر آپ کو گھر کے کسی مکین سے اختلاف ہے تو آپ پورے گھر کو ہی پھونک ڈالیں۔ پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ماضی میں بھی حکومتیں گھر بھیجی گئیں انھوں نے بھی احتجاج کیا تھا لیکن ہر بات کی کچھ حدود قیود ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ایک آئینی طریقہ سے ہٹایا گیا لیکن پہلے ایک کاغذ کے ٹکڑے کو سائفر کہہ کر سازشی تھیوری کا چورن بیچا گیا اور ساتھ میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنی ہر تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ خدا نے کسی کو نیوٹرل رہنے کی اجازت نہیں دی اور نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے حالانکہ یہ سب بھی ڈرامے تھے اس لئے کہ جب تک جنرل باجوہ تھے ملٹری اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر ٹیریان کے ابو کے ساتھ تھی یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کی ایوان صدر میں جنرل باجوہ سے ایک سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں اور اس بات کا ذکر بھی خود ٹیریان کے ابو نے ایک انٹرویو میں کیا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواکی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مشورہ جنرل باجوہ نے دیا تھا تو کوئی ہوش مند بندہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے کہ جس بندے کوآپ اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا ذمہ دار قرار دیں تو اسی کے مشورے پر اتنا بڑا قدم اٹھا لیں اور پھر اس صورت میں کہ جب آپ کی جماعت کے سینئر ترین لوگ بھی اس انتہائی اقدام سے آپ کو باز رہنے کی آخری حد تک کوشش کریں۔ یہ سارا ڈرامہ اس لئے کیا گیا کہ پاکستان میں ہمیشہ اینٹی امریکا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کامیاب رہی ہے لیکن اسے حقیقی ہوناچاہئے ڈرامے نہیں چلتے کہ ایک جانب آپ اینٹی امریکا بیانیہ بھی بیچیں اور دوسری جانب امریکن حمایت حاصل کرنے کے لئے امریکا میں بھاری معاوضہ پر ایک سے زائد فرموں سے معاملات بھی طے کریں۔
سوا سال میں سو سے زیادہ جلسے کر کے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہٹ کر گن کے بجائے قلم کے ایوانوں میں بیٹھے طاقتور لوگوں کی مکمل آشیر باد سے جو چاہا کر گذرے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا حتیٰ کہ پھر نو مئی ہو جاتا ہے جسے بجا طور پر پاکستان کا 9/11کہا جاتا ہے۔ اس سانحہ کے جو نتائج بظاہر نظر آئے وہ اس قدر ہولناک تھے کہ آج تک کوئی دشمن بھی ایسا نہیں کر سکا لیکن گذشتہ دنوں جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس سانحہ کے حوالے سے اندر کی صورت حال بتائی تو وہ باہر کی صورت حال سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ عام قارئین
کو شاید اس بات کا علم نہ ہو لیکن جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں انھیں اس بات کا یقینا علم ہو گا کہ ایک جانب تو ملک بھر میں انتہائی حساس دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن سوشل میڈیا پر اس سے بھی بڑی سازش پر عمل کیا جا رہا تھا۔ اس حوالے سے زیادہ کھل کر کچھ کہنا تو مناسب نہیں لیکن اتنا اشارہ ضرور کریں گے کہ ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا فوج کے اندر بغاوت کی جھوٹی خبریں پھیلا کر ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے
کی مذموم کوشش کر رہا تھا لیکن محب وطن حلقوں نے اس گھناؤنی سازش کو بر وقت بھانپ کر اس حوالے سے فوری اقدامات کئے اور جو افسران بھی کوتاہی کے مرتکب قرار پائے ان کے خلاف بلا تاخیر تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی۔ ملکی سلامتی کے حوالے سے حدود کو تو یہیں پر توڑ دیا گیا تھا اور ایک ساتھ بہت سی ریڈ لائنز کو کراس کیا گیا لیکن بجائے اس پر شرمندہ ہونے کے اب بھی کئی قدم آگے بڑھ کر ملک و قوم کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی سازشیں جاری و ساری ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر موجودہ آرمی چیف کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی گئی ہے اور اب تو بات ان کے قتل پر اکسانے تک پہنچ گئی ہے۔ انسان کی کوئی تو حد ہونی چاہئے۔ یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لئے ملک و قوم کی سلامتی کو ہی داؤ پر لگا دیں۔ کسی نے آپ کو نہیں روکا کہ آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہ کریں لیکن خدارا اتنا تو خیال رکھیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست اور اینٹی سٹیٹ سیاست میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں چار مارشل لاء لگے اور جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور مارشل لا میں تو جنرل ضیا نے ظلم کی انتہا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے قربانیوں کی داستان رقم کر دی تھی اسی طرح جنرل مشرف کے دور حکومت میں نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے رہنما جیلوں میں رہے لیکن کسی نے ریاست کے خلاف سازش کا سوچا بھی نہیں تھا۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ پہلے سال سوا سال میں سو سے زیادہ جلسے کر کے ملک میں انتشار کا ماحول پیدا کئے رکھا اور پھر نو مئی کا سانحہ اور اب آرمی چیف کے خلاف قتل تک کی سازش تو عرض ہے کہ معاشرے ہمیشہ قانون کی پاسداری پر استوار ہوتے ہیں جہاں قانون کی عملداری ختم ہو جائے وہاں سازشی اور جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ سانحہ نو مئی کو ہوئے دو ماہ سے اوپر ہو چکے ہیں جو کارکن حراست میں ہیں ان کے خلاف کیسوں کی نوعیت کیا ہے اسے چھوڑ دیں لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر سے لے کر وزراء اور وزیراعظم تک ماسٹر مائنڈ کا ذکر کرتے ہیں لیکن کسی کو جرأت نہیں ہو رہی کہ اس ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر سکیں۔ جن معاشروں میں بھی جزا اور سزا کے معاملات یہ رخ اختیار کر لیں گے تو پھر ملک کو عدم استحکام سے کوئی نہیں روک سکتا اور سازشی عناصر دلیر سے دلیر ہوتے چلے جائیں گے اور وہ اپنے مفاد کی خاطر ایک کے بعد دوسری سازش شروع کر دیں گے اور اگر اس دوران خدا نخواستہ کوئی سازش کامیاب ہو گئی تو صرف سازش کرنے والے ہی مجرم نہیں ٹھہریں گے بلکہ تاریخ کے کٹہرے میں وہ تمام لوگ بھی کھڑے نظر آئیں گے جنھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کئے رکھیں اور ماسٹر مائنڈ کو کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا نہیں دلائی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.