باقی اداروں کو چھوڑیں، اپنے آئینی اداروں کا ہی جائزہ لیں تو ان میں سے اکثر کا عملی کردار ان کے آئینی کردار سے مختلف یا اس سے متجاوز نظر آتا ہے، مگر پاکستان میں یہ سب چلتا ہے، پتا نہیں انوکھا کہنا مناسب ہو گا یا نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ پاکستان دنیا کا شایدواحد ملک ہے جہاں نئے عام انتخابات کرانے سے پہلے نگران سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے، اگرچہ یہ سیٹ اپ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اتفاق رائے سے قائم کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک بڑی زمینی حقیقت ہے کہ دونوں ہی اس سیٹ اپ پر پورا اعتبار اور مکمل اعتماد نہیں کرتے، کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب میں نہیں دے سکتا شاید حکومت یا اپوزیشن میں سے کوئی دے سکے، دونوں کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور عدم اعتبار کا بھی کیا کہنا،متفقہ سیٹ اپ قائم کرنے کے باوجود اقتدار چھوڑنے والی حکومت پھر منتخب ہو جائے تو اپوزیشن نتائج کو تسلیم نہیں کرتی اور پری پول رگنگ کے الزامات لگائے جاتے ہیں، اسی طرح اگر الیکشن میں اپوزیشن زیادہ سیٹیں حاصل کر لے تو اقتدار سے الگ ہونے والے حکمرانوں کے لیے اس جیت کو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے،اتنی بے اعتباری، اتنی بے وسائی کہیں اور نظر نہیں آتی جتنی سیاسی شعبے میں محسوس ہوتی ہے،انجام گلستاں کیا ہو گا؟
چلیں ماضی میں نگران حکومتیں جیسے تیسے اپنا کام کرتی تھیں اور انتخابات ہو جانے پر رخصت ہو جاتی رہیں لیکن پنجاب کا موجودہ نگران سیٹ اپ بھی ایک انوکھی مثال ہے، نگران سیٹ اپ پر پہلے حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا، 14 جنوری کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کرنے کے بعد 48 گھنٹے مکمل ہونے پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی از خود تحلیل ہو گئی بعد ازاں اتحادی حکومت اور اپوزیشن کے مابین نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا جس کے بعد صوبے کے نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کے لیے 6 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن یہ پارلیمانی کمیٹی بھی نگران وزیر اعلیٰ کے لیے کسی نام پر اتفاق رائے میں ناکام رہی تھی۔ جب کوئی چارہ کار نہ رہا تو الیکشن کمیشن نے محسن رضا نقوی کا نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تقرر کر دیا تھا۔
نگران سیٹ اپ تو قائم ہو گیا لیکن انتخابات کب کرانے ہیں اس ایشو پر خاصا شور برپا رہا، آئینی طور پر اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے روز میں الیکشن کرانا ضروری ہوتا ہے لیکن نگران سیٹ اپ قائم ہو جانے کے باوجود الیکشن کی تاریخ پر نگران صوبائی حکومت،وفاقی حکومت گورنر ز، الیکشن کمیشن اور عدالت کے درمیان سیاسی آئینی قانونی معاملات کا پنگ پانگ چلتا رہا اور تمام تر سرگرمیوں کے باوجود الیکشن اب تک نہیں کرائے جا سکے ہیں حالانکہ اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ نگراں پنجاب حکومت صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے ایک موقع پر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے ایک جواب میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی قانونی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کر دیا ہے۔
اس دوران ایک اور ایشو کھڑا ہو گیا تھا، اپریل کے چوتھے ہفتے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں قائم نگران حکومتوں کی آئینی میعاد ختم ہو گئی تو یہ سوال اٹھا کہ اگر کوئی نگران حکومت مقررہ مدت میں انتحابات کا انعقاد کروانے میں ناکام رہے تو ایسی نگران حکومت کی میعاد میں اضافے کا کیا قانونی جواز ہو گا اور اس دوران نگران حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات کی کیا آئینی حیثیت ہو گی؟ یہ مثالیں دی جانے لگیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے نظائر موجود ہیں جب نگران حکومتیں بوجوہ 90 دنوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ بنا سکیں اور آئینی میعاد گزر جانے کے بعد الیکشن ہوئے، یہ ابہام اب تک برقرار رہے۔ نگران سیٹ اپ کی اس وقت آئینی حیثیت کیا ہے؟ اس پر سبھی مہر بلب ہیں۔
اب ایک نیا معاملہ سامنے آ گیا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نگران وزرائے اعلیٰ کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں وزرائے اعلیٰ کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017ء کے سیکشن 230 کے تحت نگران حکومت کا کردار اور فرائض اپنے دورِ حکومت میں غیر جانب داری کو برقرار رکھنااور تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ یکساں سلوک اور برابری یقینی بنانا ہے۔،خط میں کہا گیا کہ نگران حکومت کے لیے غیر متنازع رہنا اور آئین اور قوانین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرنا بھی ضروری ہے، خط میں مزید لکھا گیا،یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض افراد، ممکنہ انتخابی امیدوار اور سیاسی جماعتوں کے اراکین ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ اور مختلف محکموں کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن نگران حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ قانونی مینڈیٹ کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے گی اور اپنے ماتحت اداروں اور فیلڈ فارمیشنز یعنی ڈسٹرکٹ اور ڈویژنز پر نظر رکھے گی۔
اس خط پر سوالات بعد میں مگر ابھی تو ہنسی آ رہی ہے ”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“کے مصداق الیکشن کمیشن کو چھ ماہ بعد یاد آیا ہے کہ نگران حکومت میں ایسے کام ہو رہے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایسا کیا ہو رہا ہے جس پر الیکشن کمیشن کو دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مخاطب کر کے آئینی حدود کی پاس داری کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ نگران حکومتوں کے وہ کیا معاملات ہیں جن پر الیکشن کمیشن کو اعتراضات ہیں؟ کیا نگران سیٹ اپ واقعی غیر جانب دار اور غیر متنازع نہیں رہا؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر نگران حکومتیں آئینی پیرامیٹرز کی پاس داری نہیں کر رہیں تو ان حکومتوں کی جانب سے کئے گئے فیصلوں اور اقدامات کی آئینی حیثیت کیا ہو گی؟ اور سب سے اہم یہ کہ اب جبکہ نگران حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہوئے بھی کئی ماہ ہو چکے ہیں ان حکومتوں کے تحت ہونے والے انتخابات کا آئینی جواز کیا ہو گا اور آیا ایسے انتخابات کو سبھی سیاسی سٹیک ہولڈر تسلیم کر لیں گے؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو لکھے گئے یاد دہانی کے خط کے جواز کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن اچھا ہوتا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن ان معاملات فیصلوں اور اقدامات کو پن پوائنٹ کر دیتے جن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے دو صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ کو مراسلے کے ذریعے مخاطب کرنا مناسب سمجھا،اس سے ممکن ہے نگران سیٹ اپ کو اپنے معاملات بہتر کرنے میں مدد ملتی۔اب سوال یہ بھی ہے کہ نگران حکومتیں الیکشن کمیشن کے اس مراسلے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گی یا پھر،جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے؟اور آخری بات یہ کہ ایک مقبول جماعت نے گزشتہ دنوں خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی،یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی بوجھ تلے دب گئی اور اس وقت سنجی گلیوں میں کئی کئی مرزے یار پھر رہے ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.