مہم جوئی انسانی فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔ انسان نے مہذب ہونے اور ترقی کرنے سے بہت پہلے مہمات میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی مہم جوئی خوراک حاصل کرنے کیلئے کی گئی پھر یہ روز مرہ کی ضرورت بن گئی۔ پرندوں کے شکار کے بعد بڑے جانوروں کی باری آئی پھر درندوں کا شکار شروع ہوا۔ پرندوں کے شکار سے کم خوراک حاصل ہوتی تھی جبکہ اس میں مشقت زیادہ تھی اس ضرورت نے انسان کو بڑے جانوروں کے شکار کی طرف مائل کیا۔ اگلا مرحلہ اپنے آپ کو درندوں سے محفوظ رکھنے کا تھا جو گھات لگا کر یا غول کی صورت انسانوں پر حملہ آور ہوتے اور انہیں چٹ کر جاتے۔ انسان غول کی صورت یہ مہم جوئی کرتا تھا۔ انسان کا پہلا ہتھیار پتھر تھا۔ نشانہ چوک جانے پر شکار بھاگ نکلتا اور انسان کو اسکے تعاقب میں بھاگنا پڑتا تھا پھر وہ مرحلہ آیا جب انسان نے شکار کے نئے طریقے ایجاد کیے اور اسکے لیے ہتھیار بنائے لمبے۔ لمبے بانس کو ایک طرف سے نوکیلا بنا کر پہلا نیزہ تیار کیا گیا جس سے کچھ فاصلے پر رہ کر شکار پر حملہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ طریقہ کامیاب اور طویل عرصہ تک زیر استعمال رہا پھر بانس کے سرے پر لوہے کا ٹکڑا لگا کر اس نیزے کی کارکردگی کو بہتر اور ملک بنا دیا گیا۔
طریقہ کار یوں تھا کہ درندے کو چاروں طرف سے گھیر کر شکاریوں کا ٹولہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اسے بے بس کر دیتا، نیزے سے شیر اور چیتے جیسے جانوروں کا شکار تک کیا جاتا۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ جانور کے شکار کیلئے گہرا گڑھا کھود کر اُسے گھاس پھونس سے ڈھانپ دیا جاتا پھر شکار کو اس جانب ہانک کر گڑھے میں گرا دیا جاتا، شکار کے گڑھے میں گرتے ہی اس پر چاروں طرف سے پتھروں اور نیزوں سے حملہ کر دیا جاتا، لوہے کے ٹکڑے کو نشتر میں ڈھالنے کے بعد شکار کا گوشت کاٹنا آسان ہو گیا پھر وہ دور بھی آیا کہ گڑھے میں گرے شکار کے مرنے سے پہلے ہی اسکا گوشت کاٹنے کا عمل شروع ہو جاتا، شکار درد تکلیف سے جتنا زیادہ چیختا تڑپتا شکاریوں اور انکے اہل خانہ کو اتنی زیادہ خوشی ہوتی۔ ہر خاندان اپنی ضرورت کے مطابق جانور کا گوشت اتارتا اور اسے بھوننے کے لیے آگ کے الاؤ پر لٹکا دیتا۔
انسان کے غول کی صورت شکار کیلئے نکلنے کے بعد جانوروں نے بھی شاید غزل در غول رہنے پر توجہ دی۔ ممکن ہے وہ اس طرح اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہوں۔ مشاہدے میں آیا کہ شیر جیسا درندہ بھی اپنا شکار مارنے کیلئے ”ود فیملی“ نکلتا ہے بالکل انسانوں کی طرح وہ اپنے شکار کو گھیرتے ہیں پھر سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ نر شیر زیادہ تر آرام کی کھاتا ہے جبکہ خوراک کا انتظام شیرنی کے سپرد ہوتا ہے۔ شیرنی دستیاب نہ ہو، بیمار ہو یا زچگی قریب ہو تو صرف اس صورت شیر کو کچھ کر کے کھانا پڑ جاتا ہے شیر زیادہ تر بادشاہی کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے جس میں نامحرموں کو اپنے علاقے سے دور رکھنا اور اپنی رعایا پر ہاتھ صاف کرنے سے روکنا ہوتا ہے۔
انسانی ارتقا کے بعد خوراک کیلئے شکار کم ہو گیا خوراک کے دیگر ذرائع تلاش کر لیے گئے، اناج اور پھل ضروریات پوری کرنے لگے یوں جانوروں کا شکار کم ہوتا گیا۔ زمانہ جدید میں شکار صرف شوق و مہم جوئی ہے، انسان کی روزمرہ زندگی کی ضرورت نہیں رہا۔ جس مہم جوئی کی تسکین کیلئے کبھی وہ برف پوش پہاڑوں کو سر کرتا ہے کبھی صحراؤں کی خاک چھانتا ہے۔ کبھی جانوروں کے مقابل لڑائی کے اکھاڑوں میں اترتا ہے جہاں وہ تیز نوکیلے سینگوں والے بھینسے سے لڑتا نظر آتا ہے اس پر سواری کرتا ہے اسے اپنی تیز تلواروں سے گھائل کرتا ہے۔ کبھی وہ ایسے میں طاقتور اور وحشی بیلوں کے آگے آگے دوڑتا ہے۔ اس کھیل میں وہ بیلوں کے قدموں تلے روندا جاتا ہے اسکے سینگوں سے زخمی ہوتا ہے لیکن کھیل کے نام پر مہم جوئی مختلف صورتوں میں جاری رکھتا ہے، لہو گرم رکھنے کا یہ بہانہ دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکی بد ترین شکل توسیع پسندانہ عزائم کے تحت یا وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے طاقتور ملکوں کا کمزور ملکوں پر حملہ ہے۔ انسان نے زیر آب مہم جوئی بھی اپنی ایک حس کی تسکین کے لیے شروع کی پھر اسے کاروبار کی شکل دے دی گئی، اوشن گیٹ کمپنی کی طرف سے زیر آب دنیا کو دکھانا، مہم جوئی کا شوق رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا اس کیلئے جدید مارکیٹنگ ٹیکنیک استعمال کی جاتی تھی ورنہ ایک لمحے کیلئے سوچئے کہ اس ایک سو دس سال قبل ڈوب جانے والے جہاز کے ملبے میں اب کیا رہ گیا ہو گا لیکن اس مہم پر جانے والے تصور ہی تصور میں شاید یہ طے کر لیتے ہوں کہ جب وہ اس ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے کے قریب پہنچیں گے تو اس میں سے وہ خوبرو حسینہ بڑھ کر انہیں گلے لگا لے گی جو اس جہاز کے عرشے پر اپنے محبوب کے ساتھ کھڑی خوش گپیوں میں مصروف تھی دونوں ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے اور آنے والی شب گزارنے کی منصوبہ بندی کرتے کرتے زیر عتاب آئے اور پھر زیر آب آ گئے۔ فلم ٹائٹینک کی خوبرو ہیروئن کیٹ ونسلٹ ان مہم جوؤں کے اعصاب پر سوار ہو گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جہاز کے ملبے کو دیکھنے کیلئے کسی عورت نے کبھی خواہش کی نہ وہ اسے دیکھنے گئی۔ یہ حماقت صرف مردوں کے حصے میں آئی ہے وہاں کوئی حسینہ کسی کی منتظر نہیں ہے۔ اوشن گیٹ کمپنی نے اس کام کیلئے لاکھوں ڈالر ٹکٹ رکھا یہ ٹکٹ فروخت کرنے والیاں بھی کیٹ ونسلیٹ سے کم حسین نہیں ہیں یونہی کوئی لاکھوں ڈالر مالیت کا ٹکٹ صرف ملبے کو دیکھنے کیلئے نہیں خرید لیا۔ یہ پیکیج ڈیل ہوتی ہے۔ اس پیکیج کے ایک حصے پر خشکی پر عمل ہوتا ہے جبکہ پیکیج کا زیر آب حصہ تو بہت تھوڑا ہے۔ اس مقصد کیلئے بنائی گئی منی آبدوز ہمارے یہاں پائی جانے والی چنگ چی سے زیادہ پائیدار نہ نکلی چنگ چی میں پیچھے ایک سواری زیادہ بیٹھ جائے تو اس کا اگلا پہیہ یوں اوپر اٹھ جاتا ہے جیسے گدھا گاڑی میں وزن زیادہ ڈال دیں تو گدھا ٹانگیں اٹھا کر ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔
پانچ افراد کو موت کے سفر پر لے جانے والی آبدوز خاصی خستہ حالت میں تھی اسکا اندرونی نظام ذرا سا بگڑا تو متبادل کچھ موجود نہ تھا۔ بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوا تو یہ پچک کر چپس کی شکل اختیار کر گئی یہی انجام اس میں سوار تمام افراد کا ہوا، جو یقینا خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک بھی ہے۔ اوشن گیٹ کمپنی نے اس حادثے کے ٹھیک چند روز بعد آبدوز کیلئے ڈرائیور کی ضرورت کا اشتہار دیا ہے جو کسی اور آبدوز میں کسی اور کو ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے اور کیٹ ونسلیٹ جیسی حسینہ کی زیارت کیلئے لے کر جائے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.