جمہوری لطیفہ

75

جمہوریت بہترین انتقام ہے کا بیانیہ دینے والوں نے کراچی ہی سے مئیر کے انتخاب پرشب خون مار کر بیچاری جمہوریت ہی کو شرمندہ کر دیا،سیاسی تاریخ میں شاید پہلی دفعہ ہوا کہ غیر منتخب فرد ایک ایسے ادارہ کا سربراہ بنا ہے جس میں سب عوام کے ووٹوں کے ذریعہ منتخب ہوکر مقامی حکومت کے ایوان میں پہنچے ہیں، اپنے سینے پر جمہوریت کا تمغہ سجانے والی پارٹی نے اس شہر کی مئیر شپ ہتھیانے کے لئے الیکشن سے قبل ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے تھے جب تلک تمام سازشی تھیوری کامیاب نہ ہوئی اس وقت تک الیکشن شیڈول بار بار تبدیل کیا جاتا رہا، ایسی وارداتوں کے بعد بھی انکی تسلی نہ ہوئی تو قانون میں تبدیلی سے آخری پتہ یہ کھیلا کہ غیر منتخب شخص بھی عروس البلاد شہر کا مئیر بن سکتا ہے، پھر ایسے ہی فرد کو میئر نامزد کر دیا گیا،موجودہ مئیر کے مخالف امیدوار حافظ نعیم الرحمان ہر بے قاعدگی پر صدائے احتجاج بلند کرتے رہے،ہر فورم پر دستک بھی دیتے رہے، تادم تحریر انکی ایک رٹ پٹیشن زیر سماعت ہے جو مئیر کی بحیثیت امیدوارقابلیت سے متعلق ہے، اس کا فیصلہ ہونے تک مئیر کی حیثیت واجبی سی ہوگی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ حافظ نعیم اہل کراچی کے دل کی آواز بن چکے ہیں، یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی ہے، بلکہ اس کے پیچھے انکی ریا ضت کارفرما ہے، اس شہر میں تمام پارٹیوں نے حکومت کی ہے،مگر کوئی بھی شہریوں کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکا، جب عام آدمی کا مسئلہ لے کر وہ چلے تو شہر کے باسیوں نے اِن سے اُمیدیں وابستہ کر لیں، انھوں نے اس ٹائی کون سے متاثرین بحریہ کی رقم نکلواکر دی جس سے بات کرنے پر بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں، مگر حافظ نعیم نے اپنے شہریوں کا حق مقدم رکھا، اجتماعی طور پر انھوں نے ”حق دو کراچی کو“ تحریک بپا کی سب نے اِنکی آواز پر لبیک کہا، عوامی مارچ کے نتیجہ میں بہت سے مسائل نہ صرف اجاگر ہوئے بلکہ ان کا حل بھی نکلا، جہاں عدالت جانا لازم سمجھا تو اس کے در پر دستک دی،سرکاری
اداروں میں افسران سے مذاکرات کئے،الیکٹرک کمپنی سے صارفین کو بلوں کی اضافی رقم دلائی، انھوں نے کراچی کے تما م مافیاز سے عوام کے لئے ٹکر لی۔ عوام کی درگت بنانے میں سابقہ جماعتوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، کئی دہائیوں سے شہر پر حکمران رہنے والے خود ان مافیاز کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کے سایہ میں وہ پل کر جوان ہوئے،
حافظ نعیم الرحمان کی شخصیت اہل کراچی کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔غم کے مارے لوگوں نے اپنے دل انکے سامنے کھول کر رکھ دیئے،انھوں نے کسی کوبھی تنہا نہیں چھوڑا۔
تیسری نسل سے صوبہ پر حکمرانی کرنے والوں کے حصہ میں جو ووٹ آئے وہ حافظ محترم کی پارٹی جماعت اسلامی سے کم ہیں، اس لئے بھی مقابلہ کی پارٹی نے عوام کو آسودگی فراہم کرنے کے بجائے اس کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے، لیکن جماعت اسلامی کی تاریخ ہے کہ جب بھی بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کی ذمہ داری اسے ملی اس نے عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا، مقامی سرکار کے ریوینو میں عوام پر ٹیکس عائد کئے بغیر خاطر خواہ اضافہ کیا۔نیز اکیلی جماعت نے مالی اور جانی قربانیاں دے کر اقتدار کے بغیر لسانی فاشزم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، جن نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھما دی گئی تھی حافظ نعیم نے انھیں مایوسیوں سے نکال کر”بنو قابل پروگرام“ کے تحت آ گے بڑھنے کی ترغیب دی،کراچی کے نوجوان انکے گرویدہ اسلئے بھی ہیں کہ وہ تعلیم یافتہ،باا صول اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا لیکشن کمیشن انکی پکار کو سنتا شکایات کا ازالہ کرتا،تو الیکشن کے دن کراچی کا مئیر کا یوں منتخب نہ ہوتا،پیپلز پارٹی نے تو انتخاب سے قبل ہی جیالا مئیر نہ آنے کی صورت میں اختیارات نہ دینے کی کھلی دھمکی میڈیا پر دی تھی، پری پول دھاندلی کے تمام انتظامات کی طرف بھی جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان متوجہ کرتے رہے،انھوں نے اپنے ووٹرز بھی شو کر دیئے،اتحادی جماعت کے چیرمینوں کے اغوا کئے جانے انھیں دباؤ میں رکھنے کی خبریں میڈیا پر مسلسل آتی رہیں، اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے ان کا نوٹس نہیں لیا، سوال یہ ہے کہ یہ کیسا الیکشن تھا جس میں چیرمین کو اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی آزادی بھی نہ تھی، الیکشن کمیشن کی یہی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ہرانتخاب میں ووٹرز کو وہ ماحول فراہم کرے جس میں وہ اپنی رائے آزادانہ دے سکے۔
کراچی مئیر کے الیکشن کو تمام مکاتب فکرنے دھاندلی زدہ قرار دیا اور اسے جمہوری لطیفہ کہا جس میں اکثریت رکھنے والا تو ہار گیا اقلیت والا جیت اپنے نام کر گیا۔دوسروں کو سلیکٹڈ کا طعنہ دینے والے اپنا ”سلیکٹڈ مئیر“ لے آئے ہیں، حافظ نعیم نے کہا کہ وہ اس سیاسی بد دیانتی پر الیکشن کمیشن جائیں گے وہاں شنوائی نہ ہوئی تو عدالت عظمیٰ جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اب عوامی سطح پر سوال اٹھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک مئیر کا انتخاب ہی آزادانہ اور شفاف نہیں کرا سکا ہے تو عام انتخابات کب آزادانہ ہوں گے۔ میثاق جمہوریت کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں جماعتوں نے حالات کی سنگینی سے سبق سیکھ لیا ہے اس لئے توقع تھی کہ جمہوری اقدار روایات کواپنے مفادات پر اولیت دیں گے لیکن چیئرمین سینٹ اور ڈسکہ کے انتخاب نے یہ ثابت کیا کہ سیاسی قائدین اسٹیبشلمنٹ کو بے جا کوسنے دیتے ہیں یہ از خود اپنے مفادات کے حصار سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں، اسکی بڑی مثال تعلیم یافتہ شہر کراچی میں مئیر کا انتخاب ہے۔ الیکشن کمیشن کواس بد اعتمادی کا مثبت جواب دینا ہو گا اور جو شکوک شبہات عوامی سطح کر پرامن اور شفاف الیکشن کی بابت پائے جاتے ہیں،اس پر عوام کو اعتماد میں لینا لازم ہے۔

تبصرے بند ہیں.