پروجیکٹ عمران خان اور یوم سیاہ کا یوم حساب کب؟

53

لوگ سوچتے ہیں کہ 9مئی کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا لیکن ’یوم ِسیاہ‘ کے افق سے ”یومِ حساب“ کیوں طلوع نہیں ہو رہا؟ کونوں کھدروں میں دبکے غم گسارانِ 9 مئی بھی ہولے ہولے ہُنرِ دشنام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جھوٹ کی دکانوں کے پھاٹک آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگے ہیں۔ ”پریس کانفرنسیں“ تھم سی گئی ہیں اور نئے سیاسی حجروں کی چہل پہل میں کمی آ رہی ہے۔ پُرسکوں سطحِ آب سے فریب کھا کر لنگر اٹھانے اور بادبان کھولنے کی تیاریاں کرنے والوں کو اندازہ نہیں کہ سمندر کس نوع کا ”تہیّہِ طوفان“ کیے ہوئے ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ 9 مئی کی بغاوت کے تمام کردار، تمام منصوبہ ساز اور تمام سہولت کار پہچانے جا چکے ہیں۔ سازش کی ساری کڑیاں جُڑ چکی ہیں۔ فارمیشن کمانڈرز کا اعلامیہ محض ایک جھلک تھی۔ بڑی پریس کانفرنس کی نوک پلک سنواری جا رہی ہے جو اب زیادہ دور کی بات نہیں۔
9 مئی کے ارتعاشِ مابعد کے باوجود، قومی تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں۔ ہم فنی طور پر دیوالیہ ہوئے یا نہیں لیکن عملاً صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ جب کوئی کرایہ دار، مالک مکان کے سامنے سر جھکا کر دست بستہ کھڑا ہو جاتا اور التجا کرتا ہے ”میں کرایہ ادا کرنے کے لائق نہیں ہوں، مہربانی فرما کر دو مہینے کے بعد اکٹھے لے لینا“ تو یہ نادہندگی ”دیوالیہ پن“ ہی کا دوسرا نام ہے۔ اقتصادی امور کا گہرا، وسیع اور طویل تجربہ رکھنے والے سینیٹر اسحاق ڈار پہ کتنے ہی تازیانے برسا لیے جائیں، اُن کے اخلاصِ نیت اور اَن تھک محنت ہی کے باعث اب تک، کسی نہ کسی طور، بات بنی ہوئی ہے، لیکن ہمارا ناتواں بحری جہاز تیزی سے ”برمودا تکون“ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ کس کے دست ِ بے ہُنر کا معجزہ ہے؟ اب قوم اس سازش کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو بھی اچھی طرح جان چکی ہے۔ آسان فہمی کے لیے اس سازش کو ”پراجیکٹ عمران خان“ کا نام دیا جاتا ہے۔ سازشیوں اور سہولت کاروں کی نیت یا جاگتی آنکھوں میں سجے خوابوں سے قطعِ نظر، یہ پاکستان کی ہمہ گیر غارت گری اور ناقابلِ تصور اقتصادی تباہی کے حوالے سے، پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے اور بے بال و پر کر دینے والی سب سے بڑی سازش تھی۔ ایسی سازش جو صرف پاکستان کے کسی دشمن کی کارگہِ فکر میں جنم لے سکتی ہے۔ ایک ناپختہ کار ”طفلِ خود معاملہ“ کے عشق میں، نوازشریف کو سب سے بڑے دشمن کا درجہ دے کر سرکوبی کرنے میں کم و بیش آٹھ سال لگ گئے۔ جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل رضوان اختر، جنرل فیض حمید، جنرل عاصم سلیم باجوہ اور جنرل آصف غفور فوج کی عزت اور وقار کو ’پراجیکٹ عمران خان‘ کی بھٹّی میں جھونکتے قدم قدم آگے بڑھتے رہے۔ جنرل کیانی ہم آہنگ نہ تھے تو بھی منصوبہ سازوں کو نکیل نہ ڈالی البتہ 2013 کے انتخابات میں نقب نہ لگانے دی۔ راحیل شریف کی ساری ترجیحات اور ادارہ جاتی مفادات صرف اپنی مدّتِ ملازت میں توسیع کے مقصد بُلند سے جڑے تھے۔ وہ اسی ہدف کے لیے پراجیکٹ کی سرپرستی کرتے رہے۔ خلاف توقع جنرل قمر جاوید باجوہ تن من دھن سے اس منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بن گئے
اور نہایت تیزی کے ساتھ اسے آگے بڑھایا۔ میری جنرل باجوہ سے اچھی جان پہچان تھی اور میں نے اُن کی تقرری میں مقدور بھر کردار بھی ادا کیا تھا۔ مجھے ہرگز توقع نہ تھی کہ جمہوریت اور آئین سے گہری وابستگی کا دعویٰ کرنے والے باجوہ صاحب بھاری اکثریت کے حامل ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے۔ مدتوں عمران دوستی اور نواز دشمنی کو جنرل فیض حمید کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا لیکن اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ”سینہئِ شمشیر سے باہر ’تھا‘ دم شمیر کا“۔ نوازشریف کو بھی کسی طرح جنرل باجوہ سے اس ”حُسن سلوک“ کی توقع نہ تھی۔ آج بھی بات چلتی ہے تو انہیں سب سے زیادہ رنج، جنرل باجوہ کے طرز عمل ہی کا ہوتا ہے۔
پاکستان کے لیے نہایت بھیانک نتائج لانے والے ’پراجیکٹ عمران خان‘ کے منصوبہ سازوں نے کسی موڑ پر نہ سوچا کہ ہم کتنا بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔ اُن کے پاس اس مکروہ مہم جوئی کی کوئی ٹھوس وجہ بھی نہ تھی۔ بس مَن موج تھی یا اہل و عیال کی تمنّائے بے تاب۔ انہوں نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارا ہی نہ کی نوازشریف کو 2013 میں کیسا پاکستان ملا تھا اور وہ تمام تر سازشوں، جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے باوجود کس استقامت کے ساتھ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال رہا ہے۔ انہیں بالکل دکھائی نہ دیا کہ معیشت کی شرح نمو چھ فی صد سے اوپر جا رہی تھی جسے 2018 کے بعد آٹھ فی صد کو چھونا تھا۔ اُن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں سو وہ نہ دیکھ سکے کہ افراط زر کی مجموعی شرح چار فی صد اور کھانے پینے کی اشیاء کی افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح صرف دو فی صد ہے۔ انہیں کوئی خبر نہ تھی کہ پاکستان کی سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں پہلے اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر آ گئی ہے۔ انہیں کسی نے نہ بتایا تھا کہ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان 2030 میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شمار ہونے جا رہا ہے۔ انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں مضبوط قدموں پر کھڑا ہے۔ وہ سی پیک کی شکل میں باون ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری بھی نہ دیکھ پائے۔ انہیں اِس انقلاب کی خبر بھی نہ ہوئی کہ 2013 میں لوڈ شیڈنگ میں ڈوبے پاکستان میں روشنیاں واپس آ گئی ہیں اور نیشنل گرڈ میں تقریباً بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ انہیں بالکل علم نہ ہو سکا کہ ایک مرحلے پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چوبیس ارب ڈالر سے آگے نکل گئے تھے، اُنہیں اندھے عشق میں یہ بھی دکھائی نہ دیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ وہ اس بڑی خبر سے بھی بے بہرہ رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف پروگرام کامیابی کے ساتھ پایہئِ تکمیل کو پہنچا اور نوازشریف نے کہا…… ”بائی بائی آئی ایم ایف، آئندہ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں پڑے گی“۔ انہیں بین الاقوامی معیار کی موٹر ویز، شاہراہیں، روزگار کے مواقع، توانا خارجہ پالیسی، پُر امید تاجر، حوصلہ مند صنعتکار، مطمئن کاشتکار کچھ دکھائی نہ دیا۔ انہیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نوازشریف کی کامیاب کوششیں بھی نظر نہ آئیں۔ نیلم پری، کے عشق میں ہلکان ٹولے نے نوازشریف کی مُشکیں کسیں، جھوٹے مقدمات بنائے، ججوں کے لبادے میں چھپے سہولت کاروں کے ذریعے ہانکا لگایا، نوازشریف کو گھر بھیجا، 2018 میں تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی دھاندلی کی اور چار سال تک گز گز بھر لمبے نوکیلے کانٹوں والی فصل کو اپنے مقدس ادارے کا لہو پلاتے رہے۔ معاشی برمودا تکون تک آ پہنچنے والا پاکستان، سنہری گوٹے کناری والی سیاہ ریشمی عباؤں میں لپٹے اُن منصفانِ کرام کو بھی کیسے بھول سکتا ہے جنہوں نے اپنے حلف سے روگردانی کی، اپنا ضابطہئِ اخلاق پامال کیا اور بغض و عناد میں لتھڑے ایسے متعّفن نوشتے رقم کیے جن سے آج بھی گھِن آ رہی ہے۔ ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز افضل، اعجاز الاحسن اور عظمت سعید شیخ نے پراجیکٹ عمران خان میں جو کردار ادا کیا، اُسے کیسے بھلایا جا سکے گا؟ مانا کہ وردی پوش اور عبا پوش، سابق ہو کر بھی حاضر و موجود ہی رہتے ہیں اور کوئی قانون انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا لیکن کیا وہ سب سے بڑے قادر و عادل کی گرفت سے بھی بچ جائیں گے؟
اگر آج کا پاکستان اُسی ’آئی ایم ایف‘ کی دہلیز پر ماتھا ٹیکے منتیں کر رہا ہے جسے نوازشریف نے بائی بائی کہہ دیا تھا، اگر 2017 میں دنیا کی چونتیسویں معیشت 2022 میں، سو فی صد نیچے گر کر سینتالیسویں نمبر پر آ گئی، اگر نوازشریف دور میں چار فی صد سے اوپر نہ جانے والی مہنگائی پینتیس فی صد پر آ گئی ہے اور اگر آج پاکستان گہری دلدلی پاتال سے نکلنے کے جتن کر رہا ہے تو لامحالہ نگاہیں پراجیکٹ عمران خان کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کی طرف اٹھ ہی جاتی ہیں۔ 9 مئی کا یوم سیاہ بھی جرنیلوں اور ججوں کی اسی سیاہ کاری کا ثمر ہے۔

تبصرے بند ہیں.