استحکام پارٹی!!!

42

بالآخر جہانگیر خان ترین نے ملک میں معاشی اور سماجی اصلاحات کے لیے کام کرنے کے وعدے کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت ”استحکام پاکستان پارٹی“ کے قیام کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ پارٹی کے اعلان کے موقع پر ترین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے تو ”حقیقی مسائل“ سے نمٹنے کیلئے ملک کو ایک نئی ترقی پسند سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی 9 مئی کی ناکام بغاوت کے بعد اپنی سمجھ میں ترین نے نئی پارٹی کا اعلان فی الفور اس لیے کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے بھگوڑے اس پلیٹ فارم سے ملکی ترقی میں ایک بار پھر اپنا ”حصہ“ ڈال سکیں۔ اللہ اللہ
ترین، جو کسی زمانے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھی تھے، بعد کے برسوں میں ناکام ہو گئے تھے، نے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس میں پی ٹی آئی کے 100 سے زائد منحرفین کے ساتھ نئی پارٹی کا اعلان کیا۔ علیم خان، علی زیدی، عمران اسماعیل، تنویر الیاس، عامر کیانی، فواد چوہدری اور دیگر کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے ترین نے کہا کہ وہ قائداعظم کی تعلیمات اور علامہ اقبال کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پارٹی کا آغاز کر رہے ہیں۔ پارٹی اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کا جلد اعلان کرے گی۔ ترین ووٹرز کے مینڈیٹ کے ذریعے سیاسی، سماجی اور معاشی اصلاحات متعارف کرائیں گے۔ ترین ایک نئی پارٹی ’استحکام پاکستان‘ کی بنیاد رکھتے ہوئے 2018 کی طرح 2023 میں بھی پر اعتماد نظر آئے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس موجودہ سیاسی، اقتصادی اور آئینی دلدل سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے اپنا کردار ادا کریں گے۔ آئی پی پی عام آدمی کی پارٹی ہو گی۔ ترین نے مزید کہا کہ ہم قائداعظم کی تعلیمات اور علامہ اقبال کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ آج پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی اور سماجی تقسیم کو ختم کرے اور نفرت کے بجائے محبت کو فروغ دے۔
ترین کی خواہش ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کریں اور ملک کے اقتصادی مسائل کو سلجھاتے ہوئے برآمدات کو بڑھانے کے لیے کام کریں، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے کو بلند کرنے، زرعی شعبے کو مضبوط بنانے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر کام کریں۔ ترین نے وہ تمام اصلاحات لانے کے لیے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی تب جس کی ملک کو ضرورت تھی۔ کیا نیوز کانفرنس میں بیٹھے ان کے ساتھیوں کا بھی یہی جذبہ تھا۔ ملک کے لیے کچھ مثبت کرنے کا جوعزم تھا وہ 9 مئی کو ختم ہو گیا۔ سٹیک ہولڈرز نے سخت محنت کی تاکہ پی ٹی آئی الیکشن جیت سکے اور اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہو سکے۔ ان کا بنیادی مقصد اصلاحات لانا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور عمران خان کے پاگل پن کی وجہ سے عوام کی امیدیں ختم ہو گئیں۔ 2018 کے آغاز سے ہی عمران خان کا ملک کی زبوں حال معیشت درست کرنے، بیرونی دنیا سے تعلقات بہتر کرنے اور احتساب کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ عمران خان نے اس حوالے سے کچھ نہ کیا۔ گزشتہ چند برس کی سیاست نے ہمارے معاشرے کے سماجی تانے بانے کو بھی نقصان پہنچایا ہے اب ان تمام خرابیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان حالات میں قوم کو ایک بار پھر امید دلانے کی ضرورت تھی۔
پاکستانی واقعی اتحاد، استحکام اور رواداری کو فروغ دے کر اس ملک کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 9 مئی کے افسوسناک دن کے مجرموں، منصوبہ سازوں اور ہینڈلرز کو ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ملوث افراد قانون کا سامنا کرتے ہوئے کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ ہجوم اور مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے 100 کے قریب قومی و صوبائی اسمبلی کے سابق رکن نئی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں بہت سے مزید لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہوں گے۔ نئے آنے والے ہیوی ویٹ اپنے اپنے حلقوں میں بھاری ووٹ بینک کے ساتھ ہوں گے۔ فواد چوہدری نے گزشتہ روز عشائیہ میں شرکت کی تھی تاہم انہوں نے پارٹی میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان اگلے روز کیا۔ مسرت چیمہ جنہوں نے حال ہی میں پی ٹی آئی چھوڑی تھی، نے آئی پی پی میں شمولیت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ عمران خان کی 9 مئی کو کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والی بغاوت اور فسادات کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرایا گیا تو پی ٹی آئی کے سیکڑوں افراد پارٹی سے الگ ہو گئے تھے۔ کیا پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے چھٹکارا پانے کے بعد آئی پی پی کے پلیٹ فارم پر پرانے کاریگروں کا نیا اتحاد اور ان کی ”اجتماعی کوششیں“ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکتی ہیں؟

تبصرے بند ہیں.