یہ سوال ہمیشہ سے ہی ہمارے ملک کی سیاسی زندگی میں سماج اور معاشرت پر حاوی رہا ہے کہ اب کیا ہو گا؟ اگر اس پر غور کریں تو یہ سوال وہاں ہوتا ہے جہاں لوگ سمجھتے ہوں کہ قانون موجود نہیں یا قانون کی عملداری نہیں ہے۔ ہمارے ہاں واقعی آئین صرف حلف اٹھانے اور اقتدار تک رسائی کے لیے تو موجود ہے مگر عملداری کے لیے نہیں جس کی وجہ یہ کہ ایک بار پھر یہی سوال ہے کہ اب کیا ہو گا؟ مجھے خاندان کے ایک بچے نے پوچھا کہ اب نیازی صاحب کو کہاں رکھیں گے؟ میں نے جواب دیا، جہاں یہ اپنے مخالفین کو رکھا کرتا تھا۔ عمران نیازی آخری امید تھی جو کرپشن میں پکڑی جاتی افسوس کہ یہ امید بھی دم توڑ گئی اور کرپشن کے گھاٹ اتر گئی، اب کیا ہو گا؟َ کیا پہلے کبھی ہوا ہے، کیا جنرل باجوہ اور فیض حمید کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے جو اس شخص کو لے کر آئے۔ کیا پاشا، جنرل ظہیر اسلام سے سوال ہو گا؟ کہ تم لوگوں نے اس کو مسلط کرنے میں اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اس کی طرف توجہ دی۔ کیا جسٹس ثاقب نثار اور کھوسہ کی مراعات واپس لی جا سکیں گی؟ کیا ثاقب نثار کے اقدامات جو اس نے 5 سال مدت سے کم عہدہ پر رہنے والے ہائی کورٹ کے جج حضرات کو پنشن اور مراعات جاری کر کے قومی خزانے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اربوں روپوں کا بوجھ ڈال دیا، کو واپس لیا جا سکے گا۔ کیا عمران نیازی کے چار سالہ دور کا حساب لیا جائے گا؟ گوگی، بشریٰ پیرنی، بزدار اور اعظم خان پر لگے بدعنوانیوں کے الزامات کی چھان بین ہو سکے گی؟ کیا عمران سے ذرائع آمدن پوچھے جائیں گے؟ کیا شوکت خانم ہسپتال، جس کے لیے زمین نوازشریف اور پہلا 50 کروڑ روپیہ میاں شریف نے دیا تھا جب کہ کل تخمینہ 79 کروڑ تھا، کا کبھی آڈٹ ہو پائے گا؟ امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا و دیگر ممالک سے 9500 قادیانی جو ایرینا امریکہ میں نیازی کے جلسے میں آئے تھے ان کی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کو کوئی روک پائے گا؟ سیاسی لبادے میں شر پسندوں کا وطن عزیز کی سرزمین پر دندناتے پھرنا جو بھارتیوں کے لیے باعث اطمینان و مسرت ہے، کا تدارک ہو پائے گا؟ کیا وطن عزیز میں مجرم کو محرم سمجھنے پر نظر ثانی ہو سکے گی؟ محرم کو مجرم بنا کر زندگی چھین لینے پر ندامت ہو سکے گی؟ ویسے اب کیا ہو گا تو تقسیم ہند سے ہی شروع ہو گیا تھا مگر قائد اعظم تک تو تسلی رہی، ان کی رحلت کے بعد سے سوال شدت پکڑ گیا کہ اب کیا ہو گا؟ پھر ہر گزرتے لمحے یہ سوال مزید زور دار اور کبھی سہمے ہوئے لہجے میں کیا کہ اب کیا ہو گا؟ ایوب، یحییٰ، ضیا، مشرف کی آمد نے
چہروں کے رنگ پھیکے کر دیئے اور اس سوال کا گھاؤ گہرا ہو گیا کہ اب کیا ہو گا؟ قوم کے 33 سال آئین معطل کر کے 10 سال آئین کی شق 58/B-2 نے برباد کیے، عدلیہ نے انصاف کا دلیہ کر دیا مگر سوال وہیں تھا کہ اب کیا ہو گا؟ پھر وہیں آتا ہوں کہ حمید گل سے جنرل باجوہ تک بلکہ ضیا الحق کے لگائے پودے قلمی لیڈر کی افزائش اور پرورش پر 22 سال غرق کیے، اس کا نفسیاتی جائزہ لیا نہ ماضی دیکھا، حال پہ نظر ڈالی نہ اردگرد پر، بس ایک شوق تھا کہ اختیارات ایک مٹھی میں آ جائیں۔ جنرل باجوہ اور فیض حمید نے جو کیا اس کا نتیجہ کور کمانڈر ہاؤس جس کا کام بھی جناح ہاؤس کی بے توقیری میں دیکھ لیا اور سوال وہیں ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کیا نیازی کے حواریوں، شرپسندوں، یوتھنوں اور یوتھیوں کو کوئی بتائے گا کہ بغیر نظریے کے انقلابی لیڈر ہونے کی دعویدار پکڑا کیوں گیا؟ کیا یہ نماز تراویح کی امامت کر رہا تھا؟ پنجاب میں ہونے والی کرپشن کا حساب کون لے گا؟ جسٹس افتخار، جسٹس کھوسہ، ثاقب نثار کے ہاتھوں نظام عدل سے پہنچنے والے نقصان اور پھر اس کو اسی کے دور میں بالکل ہی ایک سیاسی جماعت بنانے سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ جس دن نیازی صاحب کی گرفتاری ہوئی اس دن ایک ٹی وی چینل پر سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے گرفتاری کے ردعمل میں شرپسندوں کی کارروائیاں دکھائی جا رہی تھیں اور دوسری طرف عمران دور کی ویڈیو چل رہی تھی جس میں نوازشریف، شہبازشریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور، خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، شرجیل میمن، مفتاح اسماعیل، خورشید شاہ، خواجہ برادران، ابھی اس میں میر شکیل الرحمن اور دیگر صحافی شامل نہیں کی گرفتاریوں کی ویڈیو چل رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ نیازی صاحب حکومت بنانے کی قیامت تک پوزیشن میں نہیں آ سکتے تھے مگر یہ کام باجوہ اور فیض حمید نے کر دکھایا۔ امریکہ کو SERVE کیا، ملک مقروض کیا، پاکستان کو تنہائی کا شکار بنایا، اکثریت کھونے پر حکومت سے عدم اعتماد کے نتیجے میں فارغ ہوئے مگر نیازی کے لیے اقتدار مچھلی کے لیے پانی ثابت ہوا۔ نہیں سوچا کہ اب کیا کرنا ہے، بس سوچا کہ اب کیا ہو گا؟ اور اسمبلیاں توڑ ڈالیں، قومی اسمبلی سے استعفے دے دیئے، صدر قائم رکھا، پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو صدر بنا دیا اور اعلان کیا کہ اگر دو تہائی اکثریت نہ ملی تو پھر اسمبلی توڑ دوں گا۔ پھر سائفر سے لے کر محسن نقوی تک حکومت گرانے کے ذمہ دار ٹھہرائے۔ قوم سوچتی رہی کہ اب کیا ہو گا؟ نیازی کے حواری اس کے بیانات کی وضاحت ہی کرتے رہ گئے۔ نیازی صاحب کو آسان لینے والے سمجھ لیں کہ نیازی انتہائی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا شاطر آدمی ہے۔ اس نے شوکت خانم کی تعمیر کے دنوں میں خود کہا کہ بچوں کو قابو کرو والدین خود قابو میں آ جائیں گے۔ بچے کرکٹ کے شوقین ہوتے ہیں، مائیں میاں صلی کی حویلی میں بسنت سے واقف نہ تھیں، اگر تھیں بھی تو شعوری طور پر متفق تھیں مگر سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ہٹائے بغیر اس خود ساختہ یا قلمی لیڈر کی جگہ نہ بن پائی۔ 2013 میں یہ اپنے سیاسی کیریئر کے حوالے سے مقبولیت کے عروج پر تھا مگر نتائج میں تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھا مگر 2018 میں تو سیاسی طور پر جولائی 1977 کے بجائے 25 جولائی 2018 نافذ کر کے سلیکٹڈ کو مسلط کر دیا گیا۔ اس کے اور اس کی ٹیم کے فاشزم، نا اہلیت اور کرپشن نے ملک مقروض اور دنیا میں تنہا کر دیا۔ اس کی حمایت نے اسٹیبلشمنٹ کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کے دور کے اقدامات کی دلدل سے ملک کو باہر نکالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو گئی۔ یہ یاد رہے اب باجوہ ہے نہ فیض حمید، پھر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کی حکومت گرانے میں کسی ادارے کا ہاتھ تھا۔ ادارے غیر جانبدار ہوتے جائیں گے، نیازی معدوم ہوتا چلا جائے گا۔ آج بھی سیاسی طور پر اس کی مقبولیت تیسرے چوتھے نمبر پر ہے، مگر اس کے حواری اَت اٹھائے ہوئے ہیں جن کے پیچھے قادیانی، یہودی، بھارتی، دہشت گرد اور مافیاز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کچھ نہیں ہو گا جب تک قوم کو سچ نہیں بتایا جاتا، 1947 سے لے کر نیازی کی گرفتاری تک کا سچ، پھر پتہ چلے گا کہ اب کیا ہو گا؟ بس تبدیلی خان کے حواری ایک نظر دیکھ لیں کس کس جماعت سے آئے ہوئے ہیں تو پتہ چل جائے کہ اب کیا ہو گا؟
کیا بیوروکریسی، ایف بی آر، کسٹم، ماتحت سے اعلیٰ عدلیہ تک کرپشن، اداروں کی لوٹ مار، میڈیا ہاؤسز کی ستم ظریفیوں کے نتائج واپس نہیں ہو سکیں گے۔ تو پھر اب کیا ہو گا؟ کچھ نہیں، جو ہوتا رہا ہے وہی ہوتا رہے گا، گورے کی جگہ کالا صاحب آ گیا شاید آزادی جو ملی ہم اس کے متحمل نہ ہو سکے۔ نیازی صاحب کے بارے میں میرا خیال تھا کہ ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں۔ مگر ان کا بیان کہ ملک تین ٹکڑے، فوج کی بربادی اور ایٹم بم گرانا چاہئے کے ساتھ، ایٹمی صلاحیت پر حالات اور حالیہ واقعات سے لگتا ہے کہ موصوف کے ہوتے ہوئے دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وطن عزیز کو سری لنکا، بھوٹان اور نہ جانے کیا دیکھنا چاہتے ہیں ورنہ محض اقتدار کی خاطر تو ملک تباہ نہیں کیا کرتے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.