آج لاہور میں پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا کا بھرپور پروگرام ہو رہا ہے یہ دیر سے ہو امگر اس سے قبل تمام سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ کو پارٹی کی تاریخ سے آگاہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔اس ضمن میں چند الفاظ تحریر کر رہا ہوں۔
پیپلزپارٹی قیام سے لے کر آج تک عوام حقوق کی جدوجہد میں سروبکف عمل رہی ہے، ناجانوں کی پرواہ کی، نا مال کھو جانے کا خوف، نا خاندان کے خاندان اُجڑ جانے کی پریشانی۔
بھٹو میں غریبوں مظلوموں کی آرزوٓں کی تکمیل کا نام ہے،بھُٹو اور عوام کی پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد تقریبًا4سال سیاست کی، اور ساڑھے 5سال حکومت میں رہے، اور پونے دوسال جیل کے بعد پھانسی پرچڑھادیا گیااور وہ ہمیشہ کے لیے عوام کے دِلوں میں بس گئے۔
محترمہ بینظیر بھُٹو نے 9سال قید اور جِلاوطنی میں گزارے(اُن کی یہ جِلا وطنی خود ساختہ نہیں تھی) 1986 میں وطن واپسی کے بعد تقریباً ڈھائی سال کی جدوجہد کے بعد جنرل ضیاءکی آمریت سے نجات حاصل کر کے عام انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔اس الیکشن میں جنرل ضیاءکے ہمدردوں نے پوری کو شش کی کہ اقتدار تقسیم کرکے دیا جائے۔پنجاب میں اپنی بنائی ہوئی جماعت کواقتدار دینے میںکامیاب ہوئے پیپلز پارٹی کووفاق میں کمزور ترین حکومت دی۔
پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیٹو کمیٹی کے رائے بھی تھی کے منقسم اقتدار نہ لیا جائے، مگر محترمہ بینظیر بُھٹو نے کہا کہ میرے سولہ ہزار کارکن دس دس سال سے جیلوں میں قید ہیں۔ان کے خاندان تباہ ہو گئے، میری پہلی کوشش ان کی رہائی ہے، باقی باتیں بعد میں دیکھیں گے۔محترمہ نے سیاسی اسیران کی رہائی کے بدلے میں کڑی شرائط کو قبول کرتے ہوئے حلف اُٹھالیا۔اور پہلا صدارتی حکم نامہ اسحاق خان سے اسیران کی رہائی کا جاری کروایا۔اور ان میں جو صحافی سچ کے راستے پر چلے ،اُن کے لیے بھی آزادفضابحال کی گئی ، جن میں منہاج برنا، خاور نعیم ہاشمی، ناصر زیدی، اقبال جعفری شامل ہیں، جبکہ دانشوروں میں فیض احمد فیض ، احمد فراز، حبیب جالب، فہمیدہ ریاض جیسے لکھاری ، جو کبھی پس زنداں اور جِلا وطن رہے اور ان کے لیے بھی آزاد فضابحال ہو گئی۔ انھی سیاسی قیدیوں میں ایک خاندان کی خاتون شاہدہ جبیں کواس وقت میں جیل میں رکھاگیا،جب اسکی گود میں چھ ماہ کی بچی تھی ۔ناصر شوکت محمود،عابدہ ملک کو شاہی قلعہ میں اس کے ساتھ شرمناک تشدد کیا گیا۔اس کے علاوہ اسکے بھائی عثمان غنی کو شاہی قلعہ میں تشدد کانشانہ بناتے
بناتے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔
بیشتر رہنما اور کارکن دس دس سالوں تک جیلوں میں قید رہے جو شاہی قلعہ میں بھی بد ترین تشدد کا شکار ہوئے ۔ رئیس عطا محمد چاچڑ ، محمد دین درند ، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے جسموں کو گہرے زخموں کےلئے پیش کیا ہوا تھا۔ ان میں سے ہی ایک بڑا نام اسلم لدھیانوی کا تھا،ایک سیاسی کارکن حبیب احمد دھکڑ کے مطابق ایک ڈیل کے ذریعے قلعے کے انچارج کیپٹن رفیق کی معرفت گرفتار کر کے شاہی قلعے لایا گیا تھااور شناخت کے لیے لدھیانوی کو روبرو کیا گیا،وہ اس وقت تین فٹ کے بنچ پر برہنا بندھا ہوا تھا، اس حالت میں بھی اسلم لدھیانوی نے حبیب دھکڑ کو پہچاننے سے انکا ر کر دیا، لدھیانوی کی یہ برداشت دیکھ کر ڈیوٹی پر موجود اعلیٰ افسر نے اسلم کے منہ پر ٹھڈوں کی بارش کر دی۔دودن کے بعد والدہ کو اسلم لدھیانوی پر تشدد کی اطلاع ملی،تو وہ موقعہ پر ہی دل کا دورہ پڑنے سے جاںبحق ہوگئیں ۔اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ اسکی دونوں بہنیں ذہنی توزان کھو بیٹھیں۔ مارشل لاءافسروں کے حراساں کرنے پر ان کے شوہر ان کو طلاق دینے پر مجبور ہو گئے۔اسلم لدھیانوی کے والد اور بھائی بھی دل کے امراض میں مبتلا ہوگئے۔
اسلم لدھیانوی کے مکمل ذکر کے بغیر تاریخ نہ مکمل رہتی ہے،ان کو ساڑھے آٹھ سال شاہی قلعہ اور جیل میں قید رکھنے کے بعد محترمہ بےنظیر بُھٹو کے حکم پر 16ہزار قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ رہائی کے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ مسلسل الیکٹرک شوک لگانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کوئی بال نہیں بچا تھا،اسکا سارا جسم لرزے کی بیماری کا شکار تھا،دل اور شوگر نے بھی کھا لیا تھا،ان کی رہائی کے چند ماہ بعد ہی وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔،اسلم کی پیٹھ اور نیچے کے حصے پیپ سے بھرے ہوئے تھے، پیپ اور خون رس رہے تھے۔اسلم لدھیانوی ان دو تین مارشل لاءدشمن سیاسی قیدیوں میں سے تھے، جن پر مارشل لاءکے تشدد کا مکمل طور پر نفاذ کیا گیا تھا، دسمبر 1988ءمیں بینظیربھٹو نے سارے قیدیوں کو رہائی کے بعد اسلام آباد بلایا، اور انہیں پلاٹ دیے تو اسلم لدھیانوی نے پلاٹ لینے سے اسی طرح انکار کر دیا، جس طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے درجنوں بار مالی امداد کی پیشکش کو لدھیانوی یہ کہ کر کے میں نے فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد اسی لیے کی کہ مجھے سیاسی طور پر سپورٹ کیا جائے، قربانیوں کا مالی معاوضہ لے کر میں کرایہ کا سپاہی نہیں بننا چاہتا ، پیپلز پارٹی کی جدوجہد اس کے ذکر کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی، اسلم کو رہائی کے بعد جب محترمہ بینظیر بھٹو نے اسلام آباد میں ملاقات کے لیے بلایا،تو ان کے جسم سے بدستور زخموں کی مہک آرہی تھی۔محترمہ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی اور ان کو کہا کہ آپ کو علاج کے لیے پارٹی امریکہ یا کسی یورپی ملک میں بھجوائے گی۔اور آپ مکمل صحت یاب ہو جائیں گے، مگر اسلم لدھیانوی پیپلز پارٹی کے کارکن تھے،ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھی تھے، بینظیر بھٹو کے بھائی تھے،انہوں نے جواب دیا کہ میری زندگی اب تھوڑی سی رہ گئی ہے،بس میں اس ملک کو آزاد دیکھنا چاہتاہوں،یہی میری پہلی اور آخری خواہش ہے۔
میں نے صرف چند سیاسی کارکنوں کے بارے میں لکھا،جن کے بارے میں قریب سے جانا،میں ان تمام سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں،جنہوں نے جمہوریت کا گلہ کاٹنے والے سامراجی دلالوں اور در اندازوں اور طالع آزماو¿ں کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔پورے خاندانوں کو اُجڑتے دیکھ کر بھی معافی ناموں پر دستخط نہیں کیے،کسی گولی پھانسی سے زندگی کی بازی ہارنا کوئی معمولی قربانی نہیں،مگر دسمبر جنوری کی راتوں میں شاہی قلعوں کے تہہ خانوں میں خون منجمد کر دینے والی سردی میں برف کے بلاک پر لیٹے ہوئے اس سیاسی قیدی کا تصور کیجئے، جو ہر تشدد کے وار پر اپنے لیڈر کے نام کا نعرہ مار کر تشدد کرنے والوں کو شکست فاش دیتا ہے،شاہی قلعوں کے سر نگوں میں آج بھی اس رقص کی یادیں موجود ہیںجو رزاق جھرنا موت کا پھندا گلے میںڈالنے سے پہلے بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ایک پاو¿ں پر ناچتے ہوئے گیا تھا،اسی قلعے میں دھرم پورہ کے اُنیس سالہ عثمان نے کے ٹو کی خالی ڈبیوں سے وہ تاج بنایاجووصیت کے مطابق جلا وطنی کے بعد وطن واپس آنے پر محترمہ بینظیر بُھٹو کو پہنایا گیا تھا، سیاسی جدوجہد کے دوران جن پرمارشل لاءکی اذیتیں ڈھائی گئی ، انہوں نے وہ مردانگی سے برداشت کیں۔
مگر پیپلز پارٹی کا کوئی کا رکن جُھکا نہیں بکا نہیں، بندوق کی نوک پر ملک پر قبضہ کرنے والے طالع آزماؤں اور تنخواہ دار تہمت لگائیں ، اور انکو آزادی اور جمہوریت کے متوالے کی بجائے،ملک دشمن اور دہشتگرد قرار دے مگر تاریخی سچ اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔بُھٹو خاندان کی قُربانیاں قابل ذکر اور قابل فخر ہیں۔ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے لاکھوں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی سُنہری تاریخ کو ملک کی سیاسی تاریخ سے نکال دیا جائے تو سیاست کی پہچان کاروبار، لوٹ مار، ٹھیکوں اور مراعات کے حصول ، پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور سرکاری املاک پر قبضہ گیری ،رشوت خوری،دھوکہ دہی اور عوام دشمنی تک محدود رہ جاتی ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.