جب زوال شروع ہوتا ہے

74

کچھ معاملات پر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے لیکن اگر ان معاملات کوقدرت کے اصولوں کی نظر سے دیکھا جائے تو قطعی حیرت نہیں ہوتی اس لئے کہ قدرت کا یہ اٹل قانون ہے کہ جب کسی کا زوال شروع ہوتا ہے تو اس کی عقل پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں۔ سوچیں، اگر آپ کے سامنے کوئی لاکھ سرپٹختا کہ عمران خان نے جنرل باجوہ کے کہنے پر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کیں تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا کسی کو یقین آتا جس کے سامنے بھی یہ بات کرتے اس نے الٹا کہنے والے کے لتے لینا تھے کہ دماغ خراب ہو گیا ہے وہ عمران کہ جو ہر روز جنرل باجوہ پر تبرے بھیجتے ہیں جو جنرل صاحب کو میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں جو انھیں ولن کا درجہ دیتے ہیں کیا وہ جنرل باجوہ کو اپنا خیر خوا سمجھتے ہوئے ان کے کہنے پر دو بڑے صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ کسی کے کہنے پر اتنا بڑا اقدام کرنے کے لئے اعتمادکے ایک بڑے مضبوط رشتے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ جب کسی کا زوال شروع ہوتا ہے تو قدرت اس کی عقل چھین لیتی ہے اور یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود خان صاحب نے اپنی زبان سے اس راز سے پردہ اٹھایا اور پھر اس ٹی وی چینل پر یہ بات کہی جس کے متعلق کوئی اور کہے تو کہے لیکن کم از کم عمران خان اور تحریک انصاف یہ بات نہیں کہہ سکتی کہ اس چینل نے ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور بات اتنی صاف اور واضح الفاظ میں کہی کہ خود ان کی اپنی جماعت نے ان کے کہے الفاظ کی تردید کی لیکن چونکہ تردید انتہائی کھوکھلے الفاظ اور انداز میں کی گئی اس لئے کسی نے اس پر توجہ نہیں دی اور پھر یہ کوئی لیکس نہیں تھی کہ جس کے افشا پر کوئی اعتراض ہوتا یا عذر تراشا جاتا کہ مختلف الفاظ کو جوڑ کر یہ بیان بنایا گیا ہے بلکہ یہ تو ایک انٹرویو تھا جو ایک ٹی وی چینل پر نشر ہوا اور اگر اس کے کسی حصہ پر اعتراض ہوتا تو اسی وقت تردید آ جاتی لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جو کہا ہے اسے من و عن تسلیم بھی کیا جائے لیکن خان صاحب کا فین کلب اسے بھی اپنی مرضی کا کوئی مفہوم پہنا کر گزارا کر ہی لے گا لیکن اصل مسئلہ فین کلب سے ہٹ کر خلق خدا کاہے کہ جو اس قسم کے احمقانہ پن سے وہی مطلب اخذ کرتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے۔
اس تناظر میں اگر عمران خان کے مخالفین انھیں کٹھ پتلی کہیں تو ان کی زبانیں تو نہیں روکی جا سکتیں اور پھر بات یہیں تک محدود ہوتی تو تب بھی مٹی پاؤ فارمولا پر عمل کرتے ہوئے تحریک انصاف والے پروں پر پانی نہ پڑنے دیں لیکن کیا کریں کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر عمل کرنے والے اقدامات کی ایک طویل فہرست
ہے سوشل میڈیا پر کسی نے درست کہا کہ کشمیر کا سودا باجوہ نے کرایا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس باجوہ نے بھیجا۔ اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں باجوہ نے کرائیں۔ملائیشیا کا دورہ باجوہ نے منسوخ کرایا۔ روس باجوہ کے کہنے پر گیا۔ آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی باجوہ کے کہنے پر کی۔ وزیرخزانہ و وزیرداخلہ باجوہ نے بدلائے۔ صدارتی نظام اور دس سالہ اقتدار کا منصوبہ باجوہ کے کہنے پر بنایا۔باجوہ کو ایکسٹینشن باجوہ کے کہنے پر دی۔سی پیک باجوہ کے کہنے پر سائیڈ لائن کیا۔نوازشریف کو لندن باجوہ نے بھیجا۔ عاصم سلیم باجوہ کی کرپشن پر میں نے صفائیاں باجوہ کے کہنے پر دیں۔صوبائی اسمبلیاں توڑنا باجوہ صاحب کا منصوبہ تھا یہ سارے کام باجوہ صاحب کے کہنے پر کئے اور خان صاحب کے حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں رہتے ہوئے ان انٹرویوز کو یاد کریں کہ اگر فوج نے مجھ پر دباؤ ڈال کر کام کرائے تو میرے وزیراعظم رہنے کا کیا فائدہ میں استعفیٰ دے کر باہر آ جاؤں۔
اسی دوران آڈیو اور وڈیو لیکس کی جو لوٹ سیل لگی ہوئی ہے وہ ایک الگ ہی قیامت ڈھا رہی ہے اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اب انہیں جعلی کوئی نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مختلف آوازوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہیں بس لے دے کر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اسے غیر قانونی کہہ کر دل کا رانجھا راضی کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس سے ان آڈیو وڈیو لیکس کے حوالے سے جو تاثر بن جاتا ہے اس پر رتی بھر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اس ساری صورت حال میں ہمیں پتا نہیں کیوں کبھی لاہور ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ یاد آ رہا ہے کہ جس میں چینی 80 روپے کلو بیچنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر کبھی عمل نہیں ہو سکا اور کبھی اسلام آباد ہائیکورٹ کا وہ حکم یاد آ رہا ہے کہ جس میں الیکشن کمیشن کو 24 گھنٹے میں الیکشن کرانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس پر بھی آج تک عمل نہیں ہو سکا اور کبھی سجاد علی شاہ کا کسی حکم پر عملدرآمد نہیں بلکہ اپنے تحفظ کے لئے لکھا خط یاد آ رہا ہے کہ جسے اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے وزارت دفاع کو بھیج دیا تھا اور پتا نہیں کیوں ہمیں جنرل مشرف کا وہ انتظامی آرڈر یاد آ رہا ہے کہ جس میں افتخار چوہدری کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا تھا اور جانے کیوں ہمیں وہ انتظامی آرڈر بھی یاد آ رہا ہے کہ جو یوسف رضا گیلانی نے 16 مارچ 2009 کو افتخار چوہدری کی چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے لئے لکھا تھا اب خیالات اور سوچوں پر تو پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے کہ ان پر کسی انسان کا بس بھی تو نہیں چلتا جس دن یہ کالم قارئین تک پہنچے گا اسی دن 27 اپریل کو سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کا کیس ہے اور تا دم تحریر حکومت نے الیکشن کمیشن کو کوئی فنڈ جاری نہیں کئے اور نہ ہی سکیورٹی اہلکار دینے کا عندیہ دیا ہے اور جہاں تک سیاسی جماعتوں سے تحریک انصاف سے مذاکرات کی بات ہے تو ڈیڑھ دو دن میں یہ بیل بھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی تو اگلے چند دن میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تو ہمیشہ سے سپریم کورٹ کے ہر حکم کو مانتی چلی آ رہی ہیں لیکن سپریم کورٹ کو بھی یہ سوچنا حاہئے کہ اگر وہ انتظامی امور بھی اپنے ہاتھ میں لے کر حکم دینا شروع کر دے اور الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کا کام بھی اگر سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے تو پھر پہلے مرحلہ پر جس کی جانب سے یہ سب ہو رہا ہے اس کی اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے اور دوسرے مرحلہ پر جن کے خلاف یہ سب ہو رہا ہوتا ہے وہ ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسی کوئی نوبت آئے لیکن حالات کو بہتر کرنے کا حل صرف ایک فریق کی خواہشات کی تکمیل میں نہیں ہے بلکہ اجتماعی دانش ہی ہمیں درپیش مسائل کے بھنور سے نکال سکتی ہے زبردستی کوئی حل تھوپنے کی کوشش کی گئی تو حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.