! آئینی اور سیاسی بحران میں اضافہ

45

منگل کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مُنیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کے پنجاب میں انتخابات کو ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا جو فیصلہ سنایا ہے اور اس سے قبل پچھلے ہفتے کے دوران اسی کیس کی سماعت اور چیف جسٹس کے سو موٹو (از خود نوٹس)لینے کے اختیارات کے حوالے سے بعض عزت مآب ججز کے جو اختلافی فیصلے اور سپریم کورٹ کے بنچز کے ٹوٹنے کے جو واقعات سامنے آئے اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ میں اصلاحات کے نام پر جو بل منظور ہوا ہے۔ ان سب کو سامنے رکھ کر بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے ایک طرف ملک میں پچھلے چند ماہ سے جاری آئینی اور سیاسی بحران کے مزید گہرا ہونے کے خدشات بڑھے ہیں۔ وہاں سپریم کورٹ کے بعض عزت مآب ججز کے مابین باہمی اختلافات ہونے اور سپریم کورٹ میں سب اچھا نہ ہونے کے تاثر کو بھی تقویت ملی ہے۔ اللہ کریم ہم اور ہمارے ملک پر اپنا کرم فرمائیں۔ ہم دن بدن زوال، انحطاط اور ابتذال کی ایسی پستیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جن کی ماضی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ملک کو معاشی ابتری اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی روز افزوں گرتی قیمت کے چیلنجز کے ساتھ کمر توڑ مہنگائی ، سیاسی عدم استحکام، افرا تفری، بد امنی اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے تو اس کے ساتھ موجودہ سیاسی اور آئینی بحران اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں پچھلے چند ماہ کے دوران سامنے آنے والی تفریق اور تقسیم اورجناب چیف جسٹس کی طرف سے سینئیر ججز کو نظر انداز کرنے کے اقدامات نے ملک و قوم کی مجموعی صورتِ حال کو مزید گھمبیر اور پریشان کن بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ سچی بات ہے۔ وہ جن مقتدر، بااختیاراور ذمہ دار حلقوں سے خواہ ان کا تعلق اربابِ حکومت سے ہو یا اربابِ سیاست سے، عدلیہ سے ہو یا انتظامیہ اور مقننہ سے، اسٹیبلشمنٹ سے ہو یا صاحبانِ دانش و بصیرت سے ہو اور جن سے اس طرح کی بحرانی اور پریشان کن صورتِ حال میں حکمت، دانائی، بلند ہمتی،فراخدلی، بلند وژن اور اعلیٰ انتظامی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مظاہرے اور ہر طرح کے ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر وسیع تر ملکی اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی توقع ہو سکتی ہے۔ وہ اس توقع پر حسبِ سابق پورا نہیں اترے ہیں یا اتر نہیں پا رہے ہیں۔ یقینا یہ صورتِ حال جہاں تشویش اور پریشانی کا باعث ہے وہاں افسوسناک بھی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے جب سے
پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور ان اسمبلیوں کی آئین میں دی گئی نوے دن کی مقررہ مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد میں کئی طرح کی رکاوٹیں اور الجھنیں سامنے آنا شروع ہوئیں تو روزِ روشن کی طرح یہ نظر آ رہا تھا کہ معروضی حالات و واقعات اس نہج پر جا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے تدارک کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات یا متفقہ لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔
خیر معروضی صورتِ حال یا سیاسی اور آئینی بحران جس مقام پر پہنچ چکا ہے اس کی شدت اور سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا ء بندیال کر رہے تھے نے الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو غیر آئینی، غیر قانونی اور اختیارات سے متجاوز گردانتے ہوئے کالعدم قرار دے کر صوبے میں 14 مئی کو الیکشن کی نئی تاریخ مقرر کر دی ہے تو حکومت نے اس فیصلے کو نا قابلِ عمل قرار دے کر اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔اسے المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور حکومت ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرائے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب کی نگران حکومت الیکشن کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کریں۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو قابلِ قبول انتخابی پلان فراہم کریں اور انتخابی فرائض اور سیکیورٹی کے لئے اہلکاروں کی دستیا بی کویقینی بنائیں۔ وفاقی حکومت 10اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے کے فنڈز جاری کرے اور فنڈز جاری نہ کرنے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔دوسری طرف وفاقی کابینہ نے اس فیصلے کو ماننے یا قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تین رکنی بنچ کا اقلیتی فیصلہ ہے جو ناقابلِ عمل ہے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد سے متصادم فیصلہ تھوپا نہیں جا سکتا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آج پھر انصاف کا قتل ہوا جبکہ سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ نون کے کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ دینے والے ججز کے خلاف ریفرنس دائر ہونا چاہیے۔ 3 ججز کا بنچ 4 ججز کے فیصلے کو نہیں مان رہا۔ یہ فیصلہ نہیں ون مین شو ہے اور آئین کو ری رائیٹ (Re-Write) کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اوپر بیان کردہ چند نکات اور اس پر حکومت کی طرف سے آنے والا مخالفانہ رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں جاری آئینی اور سیاسی بحران کتنی شدت اختیار کرچکا ہے۔ بلا شبہ اس سے قبل ملک میں کبھی ایسی صورتِ حال سامنے نہیں آئی۔ تاہم اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو انتہائی پریشان کن اور افسوسناک سمجھا جاتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججز میں ابھرنے والی تقسیم اور تفریق ہے۔ واضح دکھائی دیتا ہے کہ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججز میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس کچھ ججز جن میں جونئیر ججز شامل ہیں ان پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اہم مقدمات کے لئے بنچ بنانے میں سینئر ججز کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنے بااعتماد ججز کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں تو سینئر ججز نے بھی جناب چیف جسٹس کی اس روش یا طریقہئ کار سے کھل کر اختلاف کرنے کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ پچھلے ہفتے کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ قاضی، جسٹس امین الدین، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل وغیرہ کی چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات کے حوالے سے جو فیصلے آئے ہیں اور منگل کو ہی جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بنچ کی طرف سے ان فیصلوں با لخصوص جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے دیئے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جو سپریم کورٹ اور اس کے عزت مآب ججز کے لئے باعثِ اطمینان نہیں ہو سکتیں۔

تبصرے بند ہیں.