شہر اقتدار سے گرما گرم خبریں آ رہی ہیں۔ دو بدو لڑائی شروع ہو گئی۔ انجام بھیانک نظر آ رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں صاحبان اختیار کے اختیارات پر قدغن لگانے کا بل منظور کر لیا گیا۔ صدر کو بھیج دیا انہوں نے دستخط نہ کیے تو تیسری بار دس دن کے وقفہ سے خود بخود قانون بن جائے گا۔ اس قانون کے تحت سپریم کورٹ میں کسی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے تین رکنی کمیٹی کو حاصل ہو گا اس کمیٹی میں فاضل چیف جسٹس کے علاوہ دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ ادارے آمنے سامنے آ گئے۔ انوکھی بات نہیں ہوتا آیا ہے۔ 1997ء میں بھی اندرونی تقسیم سامنے آئی تھی۔ سیاسی بحران عدالتی بحران میں تبدیل ہوا اور جسٹس سجاد علی شاہ گھر بھیج دیے گئے۔ یاد تازہ ہو گئی؟ سیانے دبے لفظوں میں خطرات کا اظہار کر رہے ہیں۔ نئے پنڈورا باکس کھل رہے ہیں، کھل گئے ہیں۔ مملکت اسلامیہ کے قاضی نے بڑا فیصلہ لکھا۔ قاضی القضاۃ نے مسترد کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ بعد از خرابی بسیار پھر سے بدلتی نظر آ رہی ہے جو اچھا شگون نہیں۔ مثبت تبدیلیاں آئیں تو ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ مزاحمت کی گئی تو اندرونی خلفشار بڑھ جائے گا۔ گھر کی لڑائی گھر میں طے نہیں ہو سکی۔ لوگ تھڑوں اور بینچوں پر بیٹھ کر اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی کو انتخابات کی جلدی ہے۔ کپتان نے ایک سال ”قیامت کا انتظار“ کیا لیکن انتظار طویل ہوتا جا رہا ہے۔ صدر مملکت نے خدشے کا اظہار کر دیا کہ انتخابات شاید 8 اکتوبر کو بھی نہ ہو سکیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کو خط میں اپنے اندرونی جذبات لکھ بھیجے وزیر اعظم نے خط کو تحریک انصاف کی ”پریس ریلیز“ قرار دے دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن زمینی حقائق کے مطابق ہوتے ہیں۔ کیا اس طرح کے ملکی حالات فیئر اینڈ فری الیکشن کے لیے سازگار ہوں گے؟ ٹوٹے پھوٹے الیکشن کا کیا فائدہ۔ اس سے بحران اور بڑھے گا۔ انا اور ضد کا مسئلہ نہ بنایا جائے تو ملک و قوم کے لیے بہتر ہو گا۔ سینئر تجزیہ کار عظیم چودھری کی باتیں دل کو لگتی ہیں کہ ”مشینری نہیں، پیسے نہیں، عملہ نہیں، ضروری سہولتیں نہیں، الیکشن کیسے ہوں گے؟“ اداروں میں تقسیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس سے عدم استحکام پیدا ہو گا۔ یہ تقسیم کئی دہائیوں تک ختم نہیں ہو سکے گی۔ یہ 1990ء نہیں 2023ء ہے۔ 8 اکتوبر سے پہلے کئی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ 16 ستمبر کو چیف جسٹس 9 ستمبر کو صدر مملکت ریٹائر ہو جائیں گے۔ بعد کے حالات کیا ہوں گے بعد کی بات ہے۔ اگرچہ انتخابات کا التوا مسائل کا حل نہیں، لیکن اس کی ذمہ داری اداروں کے علاوہ سیاستدانون پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اللہ کی مہربانی سے سارے سیاستدان اس کے ذمہ دار ہیں۔ حل کیا ہے؟ سیاستدان عقل سے کام لیں، انا اور ضد ختم کریں۔ سیاسی درجہ حرارت کم یا ختم کرنے کے لیے اے پی سی بلائی جائے۔ یہ ممکن نہ ہو تو بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام چلایا جائے۔ کپتان کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے۔ وہ چھ بار بھی اقتدار میں آ کر تن تنہا مسائل حل نہیں کر سکتے انہیں سوچنا ہو گا کہ انہیں مزید خرابی کی طرف جانا ہے یا اچھا سیاستدان بننا ہے۔ اگر انہوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو خدانخواستہ ان کے ”عشاق“ کو بھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ کہاں ہیں۔ ٹیلی ویژن سکرینوں پر آنے کا شوق ختم کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں پاپولر لیڈر ہونا اور اچھا سیاستدان ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔“ عظیم چودھری کی چشم کشا باتوں کے برعکس کپتان کو ان کے ”عشاق“ ولی اللہ ثابت کرنے اور ”ڈنڈا پیر“ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ”اچھے بھلے“ حامی نے انہیں زندہ پیر کا خطاب دے دیا اور کہا کہ زندہ پیر کے لیے (نعوذ باللہ) نیک اور برائیوں سے پاک ہونا ضرور نہیں، سچ ہے عشق کے کان اور آنکھیں نہیں ہوتیں، کپتان بھی اپنے ارد گرد مذہی ہالا بنا رہے ہیں۔ انہیں جلسوں کا بڑا شوق ہے۔ جانتے بوجھتے کہ ایک جلسہ پر کروڑوں لگ جاتے ہیں۔ وہ کسی بھی شہر میں جلسے کا اعلان کر دیتے ہیں پھر اپنے فنانسرز سے رقم طلب کرتے ہیں۔ جلسوں کی بات چلی تو گزشتہ ہفتہ انہوں نے مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسہ کیا جو بقول ان کے ”تاریخی“ تھا لیکن بدقسمتی سے تاریخ کے صفحات میں جگہ نہ پا سکا۔ چشم دید تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں زندہ دل لاہوریوں نے تو شرکت ہی نہیں کی، کتنے آدمی تھے؟ بہت تھے ان کے مطابق پندرہ سے 25 ہزار، گننے والوں نے کہا 5 ہزار کرسیاں، دس ہزار بندے باقی سیر کو نکلے اور سحری کرنے چلے گئے۔ ”دادا“ نے حساب کتاب لگا کر کہا لاہوریوں کا ایک فیصد بھی آ جاتا تو جلسہ میں پونے دو لاکھ افراد ہوتے۔ کپتان نے 99 منٹ کے خطاب میں لاکھوں کا جلسہ قرار دیا۔ حکومت پر تنقید کی کہ انہوں نے کنٹینر لگا کر ”دیوانوں“ کے راستے روک دیے ورنہ کروڑوں آبادی کے شہر لاہور کی گلیاں ”مرزا“ کی محبت میں سنجیاں ہو جاتیں۔ انہوں نے اپنے دس نکاتی روڈ میپ کا اعلان کیا۔ وہی روڈ میپ تھا جو 2018ء میں تھا۔ لوگوں نے کہا پونے چار سال کیا کرتے رہے۔ روڈ میپ پر عمل کیا ہوتا تو ملک کا نقشہ خراب نہ ہوتا۔ آئی ایم ایف اور دیگر ملکوں سے 24 ہزار ارب کے قرضے ملے
کہاں گئے لگتا ہے عوام کو ابھی تک جھوٹے وعدوں جھوٹے دعووں سے پیار ہے۔ بد قسمتی ہے ہمارے سیاستدان اپنے جھوٹ پر بھی قائم نہیں رہتے۔ بزرگ شاعر محترم ظفر اللہ اقبال نے کہا تھا ”جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پر قائم بھی رہو۔ آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے“ یعنی وقت کے ساتھ بیانیے نہیں بدلنے چاہیے۔ مینار پاکستان کا جلسہ ریفرنڈم ثابت نہ ہو سکا۔ شنید ہے کہ لاکھوں لوگ جمع نہ کرنے پر کپتان منتظمین پر برس پڑے۔ اپنے خطاب میں حکومت کو سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ عدلیہ کی حمایت کی کہا پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔ دیکھئے میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہو رہا ہے؟ منٹوں میں ضمانتیں ہو رہی ہیں۔ ایک سیشن جج ڈٹ گئے تھے۔ انہیں کالیں آنے لگیں۔ پھر کہا الیکشن نہ ہوئے تو (خدانخواستہ) ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ حیرت ہے کپتان کو ایسی خطرناک باتیں کرتے کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوتا۔ کیا کوئی ایجنڈا ہے جس پر عملدرآمد ہونا ہے؟ زلمے خلیل زاد کی خان کے ساتھ تین خفیہ ملاقاتوں کی خبریں ہیں۔ ایجنڈے کے تمام ڈائریکٹر، پروڈیوسرز ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ کپتان پوری سیاست کو پارلیمنٹ کے بجائے عدلیہ میں لے آئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کے التوا کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دے دی۔ نمبر لگا 5 رکنی بینچ بنا اور 28 مارچ کو سماعت شروع ہو گئی۔ ادھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک سو موٹو نوٹس پر فیصلہ دے دیا کہ بینچ بنانے کا عمل نئے رولز بننے تک روک دیا جائے۔ انہوں نے نئے رولز بننے تک آرٹیکل 184/3 کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ جسٹس امین الدین اس فیصلے میں شریک تھے۔ اس لیے وہ چیف جسٹس کے بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ دوسرے دن جسٹس مندو خیل نے بھی بینچ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ باقی تین بچے، چیف جسٹس نے ایک سرکلر کے ذریعے قاضی صاحب کا فیصلہ مسترد کر کے 3 ارکان کے بینچ میں ہی سماعت جاری رکھی۔ کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں پیر (آج) کو با اختیار فیصلہ سناؤں گا فیصلہ آئے گا تو پتا چلے گا ادھر حکومت نے بھی کورٹ اصلاحات کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا لیا۔ کمال ہے سینیٹ میں بل کی حمایت میں 60 جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ آئے، یک بیک کیا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔ سینیٹ میں تو پی ٹی آئی کے 52 ووٹ تھے کہاں گئے صرف 19 رہ گئے جنہوں نے ہنگامہ آرائی اور نعرے لگا کر دل کی بھڑاس نکالی۔ بل کے آئین میں شامل ہونے کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسے میں شیخ رشید کا بیان قابل غور ہے کہ 35 ارکان پر مشتمل پیٹریاٹ گروپ بنایا جا رہا ہے۔ حکومتی بل میں محسن داوڑ کی تجویز پر یہ شق بھی شامل کی گئی کہ ماضی کے کیسز میں 30 دن کے اندر اپیل کا حق دیا جائے۔ اس سے نواز شریف، جہانگیر ترین، طلال چودھری سمیت 600 افراد اپیل کر سکیں گے۔ اچھی بات ہے گزشتہ دنوں سے ”وارئیرز“ کی جانب سے غلطیوں کے اعترافات ہو رہے ہیں۔ شاید تاحیات نا اہلی بھگتنے والوں کو ریلیف مل سکے گا۔ بل کی منظوری کے علاوہ وفاقی کابینہ نے سابق حکومت کے دور میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس واپس لینے کی منظوری دی جس پر صدر مملکت نے دستخط کر دیے۔ سپریم کورٹ میں حالیہ سماعت کے ضمن میں حکومت کا اپنا موقف بھی سامنے آ گیا ہے کہ اگر متوقع فیصلہ لایا گیا تو اس پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔ جو ہو سو ہو بعد کی باتیں ہیں لیکن اس پر بھی تو غور کیا جائے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے، ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“ 25 ووٹ غائب کرنے کے فیصلے نے یہ دن دکھائے۔ ایک تسلسل ہے جو عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔ گنتے جائیے حمزہ شہباز کی حکومت گئی۔ چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے مقدمات گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی دوران خان سے تین بنیادی غلطیوں نے انہیں سیاسی بھنور میں پھنسا دیا۔ قومی اسمبلی سے استعفوں اور اسٹیبلشمنٹ سے پنگے کی شکل میں وہ دو غلطیاں کر چکے تھے۔ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کی تیسری غلطی نے انہیں غیر محفوظ بنا دیا۔ اسٹیبلشمنٹ اب بھی ان کے قابو میں نہیں آ رہی۔ اتنے غیر محفوظ ہو گئے کہ پنجاب کے بم پروف گھر میں بیٹھے ہوئے بھی اپنے تحفظ کے لیے کے پی کے پولیس اور گلگت بلتستان کے ”ٹرینڈ مجاہدین“ بلانے پر مجبور ہو گئے جو ان کی ہر پیشی پر 25,30 گاڑیاں جلانے، جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ توڑنے میں ملوث ہو کر خان کے خلاف مقدمات میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ جوڈیشل کمپلیکس پر یاد آیا کہ اسلام آباد میں سہولت کاری کرتے ہوئے ایک ایس پی پکڑے گئے ہیں جنہوں نے 26 نمبر چنگی پہنچنے پر خان کو ملنے والا احکامات سے موبائل پر آگاہ کر دیا تھا اور کمپلیکس کے احاطے میں خان کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس وردیوں میں ملبوس 20 ارکان کی بھی نشاندہی کی تھی جنہیں بعد میں ”20 قاتل چہرے“ قرار دیتے ہوئے کپتان نے گاڑی سے باہر نکل کر عدالت میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ 25 ووٹ غائب کرنے اور 63 اے کی تشریح سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ان کا احساس ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ”ایک تشریح پر موقوف تھی گھر کی رونق“ گھر اجڑ گیا اب رونقیں بحال کرنے پر بحث ہو رہی ہے۔ ساری کوششیں ایک نقطہ پر مرتکز کپتان کو آئندہ 5 سال کے لیے دو تہائی اکثریت دلا کر وزیر اعظم بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنی ”بے پناہ صلاحیتوں“ سے رہی سہی کسر پوری کر دیں۔ لوگوں نے حقائق سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ بحران کی جڑ کیا ہے۔ کسی استاد نے کہا تھا ”مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کہ نا حق خون پروانے کا ہو گا“ استاد دور کی سوچ کے مالک تھے ہمارے سیاستدان تو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ شہد کی مکھی باغ میں گھس گئی تو پروانوں کا خون ناحق اس کے سر کیسے ہو گا۔ جن کا حکم چلتا ہے انہیں سب سمجھ ہے۔ بُرا ہو عشق کا جس نے خانہ خراب کر دیا ہے۔ ”میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں، میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں“ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے میں معاونت کے بجائے انجام قریب لانے کی بھاگ دوڑ قابل تحسین نہیں قابل مذمت ہے۔ یاد رہے کہ مستقبل کا مورخ یہ بات نہیں بھولے گا کہ پاکستان کی معاشی تباہی کا آغاز 2018ء سے ہی ہوا تھا۔ عوام کی عقل سے پردے اٹھ جائیں تو ”تاریخی جلسے“ نہیں ہو پائیں گے۔ خان صاحب کو قتل کا ڈر ہے۔ کیا موت کے ایک دن معین ہونے پر ایمان نہیں۔ بلٹ پروف اور بم پروف ڈبوں میں کھڑے ہو کر عوام کو خوف کے بت توڑنے کا بھاشن دے رہے ہیں۔ عوام بے خوف ہو گئے لیڈر انجانے خوف کا شکار ہیں۔ بد قسمتی ہے کہ ملک میں ہر بات میری مرضی کے تحت چل رہی ہے۔ بات میرا جسم میری مرضی سے چلی تھی میری گھڑی میری مرضی، میری بیٹی میری مرضی میرا فیصلہ میری مرضی تک آ پہنچی ہے۔ اداروں کا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔ کھیل تماشے ہو رہے ہیں۔ ملک جوں توں آئی ایم ایف سے معاہدے کے بغیر بھی چل رہا ہے۔ خبروں کے مطابق ملک بوستان نے حکومت سے کہا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائے ایکس چینج کمپنی دو سال تک ہر ماہ حکومت کو ایک ارب ڈالر دیتی رہے گی اللہ کرے یہ پیش کش درست ہو۔ ”یہ بات ہے تو اعتبار کر کے دیکھتے ہیں“ الیکشن 8 اکتوبر کو بھی نہیں ہوں گے۔ اگلے سال تک جائیں گے، کیا ہوگا کیا نہیں ہو گا کھیل کا آخری بلکہ سپر اوور شروع ہو گیا ہے۔ کون آؤٹ ہو گا کون جیتے گا، انتظار کرنا ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.