جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

137

پچھلے ہفتے میں نے مارچ کے مہینے کا ماتم کیا تھا مگر وہ سابق مشرقی پاکستان کے حوالے سے تھا۔ آج بھی ذکر مارچ کا ہی ہے مگر یہ 2023 کے مارچ کے حوالے سے ہوگا۔ شروع وہیں سے۔ آج بھی جب پاکستان کے سیاستداں اور دانشور 1971 کے مارچ کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو یوں گویا ہوتے ہیں کہ جن بنگالیوں کی اکثریت تھی ان کی زبان کو قومی زبان نہ بنانا زیادتی تھی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ وہاں کی مقبول سیاسی جماعت تھی اور انتخابات میں وہاں ساری نشستیں جیت کر میدان میں آگئی تو اسے حکومت کیوں نہیں دی گئی؟ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں 3 مارچ کو ہونا طے تھا تو اسے ملتوی کیوں کیا گیا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسمبلی کے التوا کی وجہ سے بنگالی غصے میں آئے اور انہوں نے اپنے صوبے کو پاکستان سے الگ کر لیا۔
آج وہی لوگ پاکستان میں عام انتخابات آئین کے مطابق وقت پر کرانے کے خلاف ہیں اور حیلے بہانے کر رہے ہیں۔ کبھی خزانے میں رقم نہ ہونے کا بہانہ اور کبھی انتظامیہ کے پاس فورس کافی نہ ہونے کا بہانہ اور کبھی دہشت گردی کا بہانہ۔۔ اور یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ایک سیاسی جماعت مقبولیت کے عروج پر ہے۔ اگر انتخابات وقت پر ہوئے تو وہ سیاسی جماعت کلین سویپ کر سکتی ہے۔ اور اسی لیے طاقت کا وہی استعمال کیا جا رہا ہے جو بقول انہی لوگوں کے مشرقی پاکستان میں آرمی آپریشن کے ذریعے کیا گیا تھا۔ تو کل کا ایکشن غلط تھا اور آج طاقت کا استعمال درست ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
پاکستان کے سینیٹ کے پچاس برس اور دستور کے پچاس برس پورے ہونے پر سینیٹ کے خصوصی اجلاس میں وزیر اعظم نے تقریر کی۔ تقریب کی نوعیت کے حساب سے یہ تاریخی تقریب تھی۔ اس میں پاکستان کے آئین بننے اور سینیٹ کے آغاز پر بات ہونی چاہئے تھی کیونکہ اس اجلاس میں بے شمار غیر ملکی شخصیات بھی تشریف رکھتی تھیں۔ مگر وزیر اعظم نے موجودہ ملکی حالات کا بہت تفصیل سے اندرونی سیاسی جھگڑوں کا ذکر سخت الفاظ میں کیا اور اپوزیشن کی مذمت بھی کی۔ عام اجلاسوں میں کوئی مضائقہ نہیں تھا مگر ایسے خصوصی موقع پر جبکہ بیرونی شخصیات کی موجودگی میں یہ رویہ مناسب نہیں تھا۔ جبکہ یہی لوگ جب اپوزیشن میں تھے تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے تھے کہ یہ بیرون ملک دوروں کے دوران اپنے ملک کی اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں۔
اپوزیشن رہنما عمران خان پر سخت الفاظ میں تنقید کرنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما آئیں اور بیٹھ کر گفتگو کریں تاکہ ملک کو نازک حالات سے نکالا جا سکے۔ تقریر کے بعد جب صحافیوں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا سنجیدگی سے عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دی ہے؟ تو انہوں نے تضحیک کے انداز میں کہا کہ وہ عمران خان کو سیاستدان ہی نہیں سمجھتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ کن سیاسی رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دے رہے تھے؟ ملک کی تیرہ سیاسی جماعتیں تو آپ کی حکومت میں شامل ہیں ہی۔ یہ دعوت کس کے لیے تھی؟ آپ وہی حرکت کر رہے ہیں جو بقول آپ ہی کے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ مشرقی پاکستان میں کر رہے تھے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں اس اکبر بگٹی کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جو ملک کی فوج سے مقابلے پر تھا تو آپ کے نزدیک طاقت کا استعمال غلط تھا اور آج جب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کے کارکن اپنے لیڈر کے تحفظ کے لیے جمع تھے تو آپ کا طاقت کا استعمال جائز ہے؟ آپ نے ماڈل ٹاو¿ن میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کیا تو آپ نے یہی روش اختیار کی تھی کہ وہ لوگ ریاست سے ٹکرا رہے تھے۔
اب آئیے اس پر گفتگو کر لیتے ہیں کہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کے کارکن اور عمران خان کے حمایتی کیوں ڈھال بنے اور عمران خان کیوں گرفتاری دینے سے گریزاں تھے؟ اگر بات صرف عدالت میں حاضری کی ہوتی تو ایک سیاسی رہنما کیوں اس سے گریز کرتا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت عمومی اور ن لیگ خاص طور پر عام انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایسا ہوا تو عمران خان کی پارٹی واضح برتری حاصل کر لے گی۔ دوسری طرف آئین کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں عام انتخاب لازمی ہونے ہیں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ستمبر اکتوبر میں ہوں گے۔ ان سے بچنے کا ان کے نزدیک ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی بہانے انتخابات کو دو ایک سال کے لیے موخر کرایا جائے۔ اگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو پھر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح عمران خان پر اتنے مقدمات بنائے جائیں کِہ انہیں نہ صرف جیل جانا پڑ جائے بلکہ وہ نا اہل بھی ہو جائیں۔ اس کے بعد ریاستی جبر سے پی ٹی آئی کو اسی طرح تقسیم کرا دیا جائے جس طرح ایم کیو ایم کے ٹکڑے کرا دیئے گئے تھے۔ اگر یہ ہو جاتا ہے تو ایک تو نواز شریف فوراً
ملک واپس بھی آ جائیں گے اور انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مریم نواز اب کھلے بندوں یہ کہہ رہی ہیں کہ پہلے نواز شریف کو ریلیف دو اور کل انتخابات کرا لو۔ آخر اس بیانیے کا مطلب کیا ہے؟ دوسری جانب نواز شریف کی سزا کے حوالے سے مریم عدلیہ پر بھی دباؤ ڈال رہی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے غیر آئینی فیصلے کیے تھے اس لیے وہ پہلے اس کی تصحیح کرے تاکہ وہ کلین ہوکر واپس آئیں۔ عدلیہ پر توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کے حوالے سے بھی مریم کا دباؤ ہے کہ عمران خان کو سزا دلوا کر نا اہل کرایا جائے۔ حالانکہ اب تو عمران پر توشہ خانہ کا مقدمہ تو ویسے ہی دم توڑ چکا ہے کہ ن لیگ کے رہنما اس میں زیادہ ملوث پائے گئے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ جس زبان میں عمران خان کو دھمکیاں دے رہے ہیں ان سے بھی ساری منصوبہ بندی پی ٹی آئی کی قیادت سمجھ رہی ہے۔ ورنہ 18 مارچ کی عدالت میں حاضری کے لیے 15 مارچ کو گرفتار کرنے کی کیا تُک ہے؟ یہ صرف اسی لیے ہے کہ عمران خان کی جو عوامی مقبولیت ہے اس سے پی ڈی ایم میں گھبراہٹ ہے۔ دوسرے مریم اور رانا ثنا کے انتقامی جذبات ہیں وہ عمران خان کو ہی نواز شریف کے زوال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اسی لیے دونوں پی ٹی آئی کو اشتعال بھی دلا رہے ہیں اور اس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ ”لیڈر نہیں گیدڑ ہے“۔ اور یہ کہ ”چوہے کی طرح گھر میں گھس کر بیٹھ گیا ہے“۔ ایک بات کیوں ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ عمران خان کو ابھی سزا کسی مقدمے میں نہیں ہوئی اس لیے وہ ملزم ہے جبکہ نواز شریف ایک مجرم ہی نہیں بلکہ قیدی ہیں۔ چار ہفتے میں واپس نہ آنے کی وجہ سے عدالت نے مفرور بھی قرار دیا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے رانا ثنا اللہ اور مریم کس طرح عمران پر طنز کر سکتے ہیں؟
عمران خان کے رویے میں بھی لچک بالکل نہیں ہے۔ ایک سیاستدان اگر مذاکرات نہیں کرے گا تو مخالفین سے نمٹے گا کیسے؟ پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر سے اگر آپ بات نہیں کریں گے تو نظام حکومت کیسے چلے گا؟ اس کی تو آئینی حیثیت ہے۔ اسی طرح ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے آپ کو وزیر اعظم سے بات تو کرنا ہو گی۔ آپ فوجی سپہ سالار سے تو بات کرنے کو تیار ہیں مگر حکمراں سیاسی رہنماؤں سے نہیں۔ جبکہ عسکری قیادت سے کوئی سیاسی رہنما کھلے عام مذاکرات نہیں کرتا۔
اس وقت صورت حال بہت گمبھیر ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی بار ججز کا آپس میں ٹکراو¿ نظر آ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا رول بھی سمجھ نہیں آ رہا۔ سیاستدانوں کا حال یہ ہے کہ وزیر اعظم واحد اپوزیشن لیڈر سے بات کرنے سے گریزاں ہیں اور اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کہ سب سے بات کریں گے سوائے چوروں کے۔ عمران خان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر کے اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے بھی ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے ایسا کرنے سے ملک میں سول آمریت آ چکی ہے۔
مارچ کا مہینہ ابھی باقی ہے۔ دیکھئے کیا کچھ ہوتا ہے۔ اللہ کرے مشرقی پاکستان والے 25 مارچ کی نوبت نہ آئے۔

تبصرے بند ہیں.