”حکومت پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے، مبینہ بد سلوکی کی تحقیقات کرنی چاہئے اور جو بھی ذمہ دار ہو، اس کا احتساب کرنا چاہئے۔“ یہ ارشادات اور احکامات ہیں امریکی سینیٹر بریڈ شرمین کے جس کو یہ سب لکھ کر دیا گیا اور اس نے پڑھ کر سنا دیا۔ جب یہ خبر ہمارے ٹی وی چینلز پر چل رہی تھی تو مجھے سابق وزیراعظم کا سائفر نامہ یاد آنے لگا جو خط لے کو نمائش کر رہے تھے اور پھر اچانک خبر پڑھی کہ امریکی نمائندگان میں لابنگ کے لیے کسی فرم کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں، پھر اچانک علیمہ خان امریکی نمائندگان کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے پائی گئیں اور پھر عمران نیازی سے امریکی وفد کی ملاقات کی خبریں اور اب بریڈ شرمین کا ہدایت نامہ یا مطالبہ۔ یہ سب دیکھ کر مجھے یوتھیوں کی گاڑیوں کے پیچھے لکھا ”کیا ہم غلام ہیں“ یاد آنے لگا۔ پھر حالیہ دنوں میں نیازی صاحب کا کلپ دیکھا ”قومیں غیرت مند اور بے غیرت ہوتی ہیں، بے غیرت وہ جو جھوٹ بولے اور سب کے سامنے جھوٹ بولے“۔ میں حیران ہوں کہ یہ کیا سلسلے چل نکلے ہیں۔ ظل شاہ کے معاملے میں بریڈ شرمین کی ہدایات اور اب ان کو چاہئے کہ حکومتی سطح پر اس کی تحقیقات، ظل شاہ شہید کے والدین کے بیانات اور جذبات بھی بریڈ شرمین کو بتا دیئے جائیں اور ساتھ بتا دیا جائے کہ تم لوگوں پر 4 سال ٹرمپ حکومت کر گیا تم کسی کو کیا ہدایت دے سکتے ہو، ہم کوئی غلام ہیں۔ ادھر تو کبھی جنرل باجوہ پر بھروسہ ہوتا ہے اور کبھی ایک سی سی پی او ڈوگر امید کی کرن دکھائی دیتا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران نیازی نے جس طرح جھوٹ، فریب بدتمیزی کا بازار گرم کر رکھا ہے، بڑے بڑے اینکر، تجزیہ کار اور دانشور منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ بعض تو ریحام خان کو فاطمہ جناح سے ملانے چلے، مادر ملت قرار دینے لگے۔ جب طلاق ہو گئی تو بازاری القابات سے نوازا گیا۔ نیازی صاحب کے قول و فعل، کردار، گفتار اور مزاج پر ملک کو پہنچنے والے
نقصان پر بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ جھوٹ کی بندہ کہاں تک مذمت کرے۔ اگر عمران نیازی ملک سے اس کے عوام سے ہمدردی رکھتے تو کیا بزدار کو 12 کروڑ سے زائد کا صوبہ دے دیتے جس میں اعظم خان، پنکی پیرنی اور گوگی کے احکامات کی بازگشت سنی جاتی۔ یقینا اگر بھلائی چاہتے تو چودھری سرور جیسے لوگوں کو موقع اور اختیارات دیتے مگر چودھری سرور تو گورنر ہاؤس میں اپنی این جی او بھی نہ چلا سکتے تھے کہ نیازی صاحب کو اپنے سے بڑھ کر کوئی اچھا نہیں لگتا۔ چودھری سرور نے بطور گورنر بیگار کاٹی اور بالآخر اللہ نے عزت رکھی کہ حالات ایسے ہو گئے، پی ٹی آئی سے باہر پتہ نہیں آ گئے یا نکال دیئے گئے۔ پھر اس کے بعد ”پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو“ کو لے آئے اور پنجاب حکومت محض اس لیے ختم کر دی کہ پرویز الٰہی حکومت نہ کر سکے۔ اب محمد خان بھٹی کے انکشافات ہیں اور غلام ہیں۔ کل توشہ خانہ کی تفصیلات آئی ہیں توشہ خانہ بھی خانہ خراب ہی نکلا لیکن لوگوں کے علم سے محروم ہے کہ توشہ خان سے حسب ضابطہ تحفہ خریدنا جرم نہیں اس کی خریدو فروخت کو کاروبار بنا لینا جرم ہے۔ پی ٹی آئی مریم نواز کا سن کر ایک ٹانگ پر لڈی ڈال رہی ہے حالانکہ جرم کے جواب میں جرم کبھی دفاع یا جرم کے ارتکاب کرنے کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ بالآخر ہمیں آج نہیں تو کل ٹروتھ کمیشن بنانا ہو گا، قوم کو سچ بتانا ہو گا۔ اب آتے ہیں چودھری سرور صاحب سابقہ گورنر جب تک گورنر لکھا یا بولا نہ جائے چودھری صاحب کی پہچان مکمل نہیں ہوتی۔ میری چودھری سرور صاحب سے جتنی ملاقاتیں ہیں میں نے ان کو وطن عزیز کے لیے، اس قوم کے لیے کچھ مثبت کرنے کے لیے بے تاب پایا۔ چودھری صاحب کا تجربہ اب پاکستان، یورپ، امریکہ، عرب ممالک حتیٰ کہ بھارت کا تقابلی تجربہ بھی ہے لوگ تو تقابلی تجزیہ یا مطالعہ کرتے ہیں مگر چودھری صاحب کا تجربہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کوئی اپنی سیاسی ایمپائر کھڑی کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو یاد رکھا جائے۔ میں نے بھی ملک سے باہر وقت گزارا ہے۔ پاکستانی جو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوں وہ ضرور ویسا ماحول اپنے ملک میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ سارا سارا دن موازنہ کرتے رہتے ہیں، بہتری کے منصوبے بناتے رہتے ہیں چودھری صاحب کو موقع تو ملا مگر عمران نیازی نے ضائع کر دیا اور ان کو کوئی کام نہ کرنے دیا۔ اب ان کی دوبارہ سیاست میں اینٹری ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی یہ شمولیت ایک پیغام بھی ہے۔ کبھی عرب معاشرت میں جنگ کا رواج تلواروں، تیروں کے ساتھ تھا تو مشہور تھا کہ فلاں 100 یا ہزار پہ بھاری ہے۔ چودھری صاحب بھی سیاسی حوالے سے سیکڑوں پہ بھاری ہیں یا پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت میں ان کا سب سے بڑا مشورہ بیرون ملک پاکستانیوں سے ہوا ہے اور اگر ان کے ساتھ سلیم خان یا جہانگیر ترین بھی آ گئے تو انتخابی سیاست میں مسلم لیگ پی ٹی آئی سے زیادہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ آئندہ انتخابی صف بندی میں پاکستان مسلم لیگ، ن لیگ، جمعیت اہل حدیث جبکہ پیپلز پارٹی نے اگر انتخابی اتحاد کیا تو وہ اے این پی سے ہو گا یا وہ تنہا سیاست میں اترے گی۔ آنے والے دنوں میں چودھری سرور، علیم خان اور جہانگیر ترین کا کلیدی کردار ہو گا۔ ابھی چند ہفتوں بعد صورت حال واضح ہو جائے گی۔ بہرحال ابھی انجوائے کریں، سائفر سے بریڈ شرمین تک، ظل شاہ کے قتل کی ذمہ داری، جھوٹ کی بے غیرتی کی تعریف کو، چودھری صاحب کی اینٹری اور عدالت عظمیٰ کے متعلق لوگوں میں پائی جانے والی گفتگو، آڈیوز ویڈیو کو۔ آنے والے دنوں میں بہت سے مسائل حل ہو چکے ہوں گے۔ فیک نیوز، فیک لیڈرشپ اڑی ہوئی دھول کی طرح بیٹھ چکی ہو گی، مستقبل مریم نواز، نوازشریف، بلاول بھٹو اور اتحادیوں کا ہی ہو گا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.