سوال تو اْٹھیں گے

57

نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اپنی ٹیم، نگران وزیراطلاعات پنجاب عامر میر، نگران وزیر”بیمار صحت“ پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ظلے شاہ کی موت ایک ٹریفک حادثہ تھی، ٹریفک کے اس حادثے کی اصل حقیقت پر اگلے روز حامد میر نے بھی تفصیل سے لکھا، اْنہوں نے ماضی میں سیاسی و نظریاتی کارکنوں پر ہونے والے پولیس تشدد کی پوری داستان سْنائی، اْنہوں نے پیپلز پارٹی کے ”سائیں ہرا“ کو بھی یاد کیا جسے پیپلز پارٹی اب بْھول چکی ہے، ظلے شاہ کی موت کی حقیقت کے واضع اشارے بتاتے ہوئے اْنہوں نے اس بات کا بھی لحاظ نہیں رکھا اْن کے سگے بھائی عامر میر پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات ہیں اور وہ اْس پریس کانفرنس میں موجود تھے جو ظلے شاہ کی موت کو”ٹریفک حادثہ“ ثابت کرنے کے لئے بْلائی گئی تھی، اس موقع پر سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عامر میر کے لب و لہجے میں کْچھ تلخی تھی، عہدے کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر اْنہیں اس بات کی لاج رکھنی چاہئے وہ ایک بڑے انسان وارث میر (مرحوم) کے صاحبزادے اور حامد میر کے بھائی ہیں، اْن کے والد مرحوم نے جس دلیری سے”آئین شکن قوتوں“ کا مقابلہ کیا اْن کی اس مزاحمتی صحافت سے ہم جیسے کمزوروں کو آج بھی حوصلہ ملتا ہے، میں حیران ہوں وارث میر جیسے بڑے انسان کے چھوٹے صاحبزادے عامر میر نے معمولی سا ایک عہدہ کیسے قبول کر لیا؟ یہ وارث میر کی شان کے خلاف ہے، یوں محسوس ہوتا ہے حامد میر کی اپنے چھوٹے بھائی عامر میر سے کسی بات پر کوئی ناراضگی ہوگی ورنہ وہ ایک بے وقعت سا عہدہ پکڑنے سے اْنہیں منع کر دیتے، میں نے یہ عہدہ پکڑنے پر بڑے بوجھل دل سے اْنہیں مبارک دی تھی، وہ بہت بڑے صحافی ہیں، میں اْن کے مقابلے میں ایک”بونا“ ہوں، وارث میر کا بیٹا اور حامد میر کا بھائی ہونے کا اعزاز بھی مجھے حاصل نہیں ہے، مگر نگران وزیر اطلاعات پنجاب اپنے ذرائع سے تصدیق کروا لیں اب تک کتنے اہم عہدوں کی مجھے پیشکش ہوئی میں نے معذرت کر لی، میں نے کہا میرا میرٹ نہیں بنتا، میں صرف لکھ سکتا ہوں یا بطور اْستاد جو رْتبہ اللہ نے مجھے بخشا ہے وہی کر سکتا ہوں۔۔ چودھری سرور پنجاب کے گورنر تھے، وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں، ایک بار اْن کے پرنسپل سیکریٹری کی مجھے کال آئی کہنے لگے ”گورنر صاحب کی خواہش ہے آپ کو پنجاب یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا رْکن مقرر کیا جائے“ میں نے اس سے بھی معذرت کر لی حالانکہ یہ ایک خالصتاً تعلیمی عہدہ تھا جسے بطور ایک ”ماہر تعلیم“ قبول کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا، عمران خان سے میرا کتنا پْرانا اور ذاتی تعلق ہے سب جانتے ہیں، وزیراعظم بنتے ہی اْنہوں نے مجھ سے پوچھا ”تم کس شعبے میں میری مدد کر سکتے ہو؟، میں نے کہا”میں صرف آپ کو مشورہ دے سکتا ہوں، وہ بھی اس صورت میں اگر آپ اس کی ضرورت محسوس کریں“، اْنہوں نے میڈیا ایڈوائزر بننے کے لئے کہا، میں نے ادب سے عرض کیا ”میرا میرٹ نہیں بنتا“، اْنہوں نے مرکز اور پنجاب کے کئی ادبی و ثقافتی اداروں کا سربراہ بننے کے لئے کہا، میں نے عرض کیا”میرا میرٹ نہیں بنتا“، اقتدار سے الگ ہونے سے چھ ماہ پہلے اْنہوں نے مجھے بْلایا، پوچھنے لگے”تمہارا گریڈ کیا ہے؟“، میں نے مْسکراتے ہوئے کہا ”میرا ڈاؤن گریڈ“ ہے”، مجھے پتہ چل چکا تھا وہ مجھے کویت میں پاکستان کا سفیر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں“، میں نے کہا ”آپ نے میرے لئے جس عہدے کا سوچا ہے اْس کے لئے میرا گریڈ ڈاؤن ہی ہے، میں اس کا اہل نہیں ہوں“، اْنہوں نے ہمارے ایک محترم قلم کار کا باقاعدہ نام لے کر کہا”وہ بھی تمہاری طرح ٹیچر تھے، اْنہیں بھی سفیر بنا دیا گیا تھا“ میں نے کہا”میں اپنی بات کر رہا ہوں“۔۔ یہ ساری تفصیل عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے میرے جیسا کمزور شخص جو وارث میر جیسے بڑے آدمی کے بیٹے اور حامد میر کے بھائی ہونے کے اعزاز سے بھی محروم ہے وہ اگر کسی سرکاری یا درباری عہدے کی بخشش لینے کا تصور نہیں کر سکتا عامر میر نے یہ فیصلہ اتنی آسانی سے اللہ جانے کیسے کر لیا؟۔۔ میں معافی چاہتا ہوں پی ٹی آئی کے ایک ملنگ کارکن کی بات کرتے ہوئے میں کہیں اور نکل گیا۔۔ ظلے شاہ کی موت کو ٹریفک کا ایک حادثہ ثابت کرنے کے لئے جو پریس کانفرنس بنائی گئی تھی یہ درست ہے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی روایتی طبیعت کے مطابق اْس میں صحافیوں کے انتہائی تلخ سوالات کے جواب بہت تحمل سے دئیے، بلکہ ایک موقع پر جب نگران وزیر اطلاعات عامر میر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ تلخ ہوئے اْنہوں نے اْنہیں بھی نرمی اختیار کرنے کو کہا، محسن نقوی کا لب ولہجہ بھی بہت دھیما اور نرم تھا،مگر کوئی مانے نہ مانے اس حادثے سے متعلق صحافیوں اور عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں، حامد میر نے شاید اسی لئے اس پر ایک کالم لکھنے کی ضرورت محسوس کی، کئی سوالات اْدھورے ہیں، یہ بھی نہیں بتایا گیا ”ٹریفک کا یہ حادثہ کیسے ہوا؟، کسی سڑک پر ٹریفک کا معمولی سا کوئی حادثہ ہو جائے بیسیوں لوگ ادھر اْدھر سے نکل کر ”جائے حادثہ“ پر پہنچ جاتے ہیں، ایک ایسا حادثہ جس میں ایک جان چلی گئی موقع کے دس بارہ گواہ تو ضرور ہوں گے، وہ سب کہاں گئے؟ جس حساس علاقے میں حادثہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہاں کے تو کیمرے بھی خراب نہیں ہو سکتے سیف کسی ایک کیمرے میں اس حادثے کا کوئی منظر تو محفوظ ہوا ہوگا، وہ منظر کیوں منظر عام پر نہیں لایا گیا؟ کوئی بھی حادثہ ہو ”جائے حادثہ“ پر کھڑے اکثر لوگ اپنے اپنے موبائل فون نکال کر وڈیو کلپ بنانے لگتے ہیں، ایسا کوئی ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر کیوں نہیں آیا؟ بقول نگران سرکار اگر واقعی یہ حادثہ تھا فوری طور پر اْسے قتل بنا کر اس کی ایف آئی آر پی ٹی آئی کے سربراہ پر کیوں تھونپی گئی؟ پوسٹ مارٹم کے بعد ایم ایس سروسز ہسپتال کے فوری تبادلے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ظلے شاہ کے والدین اپنے ملنگ بیٹے کی موت پر کچھ بھی کہہ لیں میں اْس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، مگر نگران سرکار اور سیاسی پولیس افسروں کی خدمت میں عرض ہے اپنی ”درباری مجبوریوں“ کے تحت وہ جتنے چاہیں جھوٹ بول لیں، جتنی چاہیں فنکاریاں دیکھا لیں اْن کی بات نہیں بنے گی، اگر یہ اتنے ہی سچے ہوتے، بجائے اس کے اپنے ایک ملنگ کارکن کی موت پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا لے کر پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کرتی، پہلے یہ کرتے۔۔ میں بار بار یہ عرض یہ کرتا ہوں ”اس مْلک میں قتل کرنا نہیں قتل ہونا جْرم ہے“، سو ظلے شاہ کو قبر سے نکال کر اْس کی لاش کو کسی عدالت میں لیجایا جائے، کسی پولیس افسر کے سامنے پیش کیا جائے کہ اْسے قتل ہونے کی جْرات کیسے ہوئی؟ اس ”جْرم“ میں اْس کی لاش کو پھندے پر لٹکا دیا جائے تاکہ پاکستان کی باقی ”بائیس کروڑ لاشیں“ عبرت حاصل کریں۔۔

تبصرے بند ہیں.