جلد عام انتخابات، ورنہ……

76

دانا کہتے ہیں کہ جمہوری ریاست میں حکومت بنتی اکثریت سے‘ چلتی حکمت سے ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمران اشرافیہ نے ہمیشہ حکمت و دانش اور دانائی کی مٹی پلید کی ہے، یہ حکومت حکمت سے چلانے کے بجائے طاقت سے چلانے کو ترجیح دیتے رہے ہیں، تبھی یا تو حکومتوں نے یہاں مدت پوری نہیں کی یا اگر کی بھی ہے تو کچھ آؤٹ پٹ نہیں آیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے بجائے دور بیٹھی مقتدر قوتوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تبھی پھر اس ملک میں بار بار مداخلت ہوتی ہے یا مارشل لائے لگائے جاتے ہیں۔ ان کن اکھیوں نے تاریخ میں مارشل لاؤں کے حالات و واقعات کو دیکھا اور مشاہدہ کیا ہے۔ لہٰذاآج کے حالات کسی طرح سے بھی مختلف نظر نہیں آرہے۔ تاریخ میں مارشل لاء لگانے سے پہلے حالات اسی طرح خراب کیے جاتے رہے کہ لوگ خود ہی مارشل لاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے دکھائی دیں اور کہیں کہ ہاں! واقعی مارشل لاء وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ ”خالص جمہوریت“ کا ایک دن مارشل لاء کے ہزار دنوں سے بہتر ہوتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ ڈکٹیٹر شپ کے دنوں کے فیصلے ملاحظہ فرمالیں کہ جن سے پاکستان آج بھی نبرد آزما ہے۔ مثلاً مشرف نے بغیر مشاورت امریکا کو ہوائی اڈے دیے، سیکڑوں پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا اور بدلے میں ڈالر لیے،2002میں زبردست انتخابی دھاندلی کی اور نیب کا سب سے پہلے سیاسی استعمال کیا۔ قبائل علاقوں میں طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ امریکا و اتحادیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کر نے کی اجازت دی۔ اکبر بگٹی کو قتل کرایا، اْس وقت کے چیف جسٹس اور دیگر معزز جج صاحب کی تذلیل کرائی۔ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مکمل این آر او دیا۔ لال مسجد میں طاقت کا استعمال کیا جس کا ری ایکشن پورے ملک میں دیکھا گیا، بے نظیر مشرف دور میں قتل ہوئی جس سے ملک کو ایک بڑے قومی سانحہ سے گزرنا پڑا۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ آپ جنرل ضیاء کے دور کو دیکھ لیں، جنرل ضیاء نے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امریکا ہی کے کہنے پر افغان روس جنگ میں اپنے جہادی بھیجے، تاکہ روس کو شکست ہو۔ پھر سب نے دیکھا کہ روس کو شکست ہوئی اور پھر جب وہی جہادی پاکستان واپس آئے تو یہاں مختلف طرح کی پرتشدد تنظیمیں بنائیں جس سے فرقہ بازی نے جنم لیا۔ پھر ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ نے ہی غیر جماعتی الیکشن کرا کر سب سے پہلے پیسے والے لوگوں کو سیاست میں لا کر سیاست کو ایک ”کاروبار“ بنا دیا۔ پھر انہوں نے پاکستان میں ”اسلامائزیشن“ کا مکسچر متعارف کرایا جس کا نقصان یہ ہو اکہ ہم مغرب ہم سے مزید دور ہوتا گیا۔ اور ملک انتہا پسندی کی طرف چلا گیا۔
اسی لیے کہتی ہوں کہ سیاسی جماعتیں سنبھل جائیں، ایک ٹیبل پر بیٹھیں، اپنے مسائل حل کریں اور جو پارٹی اکثریت حاصل کرے اْسے اقتدار سونپیں اور اگلے پانچ سال اپنی باری کا انتظار کریں۔ جبکہ حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے‘ 30اپریل کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتخابات کا انعقاد ہونا ہے‘ مگر الیکشن سے پہلے جو ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ اس بار دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے تاحال انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہوا‘ مریم نواز انتخابی مہم کے بجائے ورکرز کنونشن اور تنظیم سازی کر رہی ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہوا حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے بھی انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا۔ حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بروقت فنڈز اور سکیورٹی کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پورے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 65 ارب روپے درکار ہوں گے‘ دو صوبوں میں انتخابات کیلئے 20ارب چاہئے‘ وزارت خزانہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو صرف پانچ ارب روپے جاری کئے گئے ہیں‘ کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر 10ارب روپے جاری کئے جائیں۔ اسی طرح پنجاب میں تقریباً تین لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں سے 56 ہزار اہلکار خیبرپختونخوا میں تعینات ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ہونے تھے تاہم خیبرپختونخوا میں تاحال الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو سکا۔ گورنر غلام علی چودہ مارچ کو الیکشن کمیشن حکام سے ملاقات کریں گے‘ الیکشن کمیشن اور گورنر خیبرپختونخوا کے درمیان اس سے پہلے بھی دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں جو بے نتیجہ رہیں۔ خیبرپختونخوا میں قبائلی اضلاع کے عمائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری سے پہلے الیکشن نہ کرائے جائیں۔ چونکہ میں خود قبائلی ہوں اس لئے قبائلی عمائدین کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 2017ء کی مردم شماری پر قبائلی اضلاع کو تحفظات ہیں کہ ان کی آبادی نصف ظاہر کی گئی ہے‘ جس کی بنا پر انہیں کم فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری میں قبائلی اضلاع کی آبادی 50 لاکھ ظاہر کی گئی تھی۔قبائلی عمائدین کا دعویٰ ہے کہ ضم شدہ اضلاع کی آبادی ایک کروڑ سے متجاوز ہے۔ ایسے میں اگر نئی مردم شماری کے بغیر الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو قبائلی عوام کی محرومیاں اور ان کے تحفظات اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے۔ یعنی یہ مسئلہ بھی حقیقی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اسے ایک دو مہینے میں حل نہ کیا جاسکے۔
لہٰذاسیاستدانوں کے لیے یہ بڑا موقع ہے کہ وہ ایک میز پر بیٹھ جائیں اور الیکشن کی طرف جائیں۔ تاکہ ملک میں استحکام آئے، ورنہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی یہ سوچ لیں کہ اگر مارشل لاء آگیا تو اگلے دس سال کے لیے ملک ایک بار پھر مفلوج ہو جائے گا۔ اور پھر مارشل لاء کو Justifyکرنے کے لیے بہت سے سیاستدانوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں، اْنہیں زدو کوب کیا جاتا ہے یا پھر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ آپ 1977ء کے مارشل لا کو دیکھ لیں، 1999کے مارشل لاء کو دیکھ لیں کہ کیسے سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ ابھی تو سیاستدان عدالتوں یا نیب سے ڈرتے ہیں، مگر جب مارشل لاء لگا تو ان سب کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔ لیکن اس سب میں دو نقصان ہوں گے، ایک عوام کا اور دوسرا ملک کا۔ لہٰذافیصلہ ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسی ڈگر پر چلتے ہیں یا باہمی کوئی فیصلہ کرتے ہیں جس سے ملک میں استحکام آجائے۔ اور مارشل لاء کا خطرہ ٹل جائے۔
اور رہی بات عوام کی تو یقین مانیں مجھے دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا مرنے کے لیے ہم عوام ہی رہ گئے ہیں؟ جو اچھے دنوں کی امید میں عوام ہر کسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ وہ اپنے لیڈروں کوتخت پر بٹھا کر‘ دیوتا کا درجہ دے کر انہیں پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دیوتا کے خلاف وہ کوئی بات نہیں سنتے۔ انسانی پسند‘ ناپسند بڑی خوفناک چیز ہے۔ جو بندہ آپ کو پسند ہو‘ آپ اس کے بارے میں ایک بھی برا لفظ نہیں سن سکتے۔لیکن عوام کو ملتا کیا ہے؟اور کیا مل رہا ہے، ماسوائے ذلالت کے۔ اس لیے دست بستہ گزارش ہے کہ خاص طور پر بزرگ سیاستدان اس اہم کام کے لیے آگے بڑھیں،سبھی ان جماعتوں کو اکٹھا کریں، سبھی اْن کی بات بھی سنیں گے اور اْن کی بات کو اہمیت بھی دیں گے، ورنہ مارشل لاء کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ سیاستدانوں کو، عوام کو اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو!

تبصرے بند ہیں.