عمران خان کی تعریف

161

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تعریف بنتی ہے کہ وہ انتہائی خوش قسمت، محنتی اور ذہین شخص ہیں ۔ وہ عوام کی نفسیات سے کھیلنا جانتے ہیں۔ انہیں مذہب، قومیت اور محرومیوں کا استعمال کرنا کسی بھی دوسرے رہنما سے بہتر آتا ہے۔ وہ خود اعتمادی سے بھرے ہوئے ہیں اور دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ایسے جھوٹ بول سکتے ہیں کہ اگلے کو اپنے سچ پر شک ہوجائے۔ وہ بدترین حالات میں بھی اپنے مخالفین کو دباو میں لانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور جیل بھرو تحریک ان کی انہی صلاحیتوں کا اس وقت ایک بھرپور مظاہرہ ہے جب وہ خود جیل نہیں جانا چاہتے،وہ خود ایک کے بعد دوسری عدالت سے اپنے اوپر ہونے والے پے در پے مقدمات میں ضمانتیں اور اس سے پہلے حفاظتی ضمانتیں لے رہے ہیں ۔ انہوں نے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ کے ارد گرد اپنے کارکنوں کا حصار بنا رکھا ہے جن میں خواتین اور بچوں کی قابل ذکر تعداد بھی موجود ہوتی ہے۔ جب ان کی ہدایت پر ان کی پارٹی جیل بھرو تحریک شروع کر رہی ہے تو وہ اس وقت خطرہ موجود ہے کہ اگر خود عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی توسانحہ ماڈل ٹاون کی طرح ایک سانحہ زمان پارک بھی ہوسکتا ہے۔ وہاںاسلحہ بردار لوگوں کی بھرمار ہے۔ وہاں سے ڈنڈا بردار جتھوں کی ویڈیوز شئیر کی جار ہی ہیں جو ایک واضح پیغام دے رہی ہیں۔
عمران خان بیانیے کی تشکیل میں جو مہارت رکھتے ہیں وہ کمال ہے۔ اب آپ ان کی عدالت میں پیشی ہی دیکھ لیجئے کہ جب نواز شریف عدالتوں میں پیش ہوا کرتے تھے تو وہ وضاحتیں دیا کرتے تھے مگر خانصاحب نے مخصوص پیش منظر اور اتنے ہی مخصوص پس منظر کے ساتھ ایک ایسی فضا بنا دی ہے جس میں جج صاحبان گھنٹوں بلکہ دنوں بیٹھ کے ان کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ تشریف لائیں تاکہ وہ انہیں حفاظتی ضمانت دے سکیں۔ میں نے عدالتوں میں پیش ہونے کا پورا احوال دیکھا ہے جس میں عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ پیش ہو کر دراصل عدالتوں پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مبینہ قاتلانہ حملے کے کم و بیش چار ماہ کے بعد وہ اپنے گھر زمان پارک سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر لاہور ہائیکورٹ میں میڈیکل اور سیکورٹی کی بنیادپر حاضر نہیں ہوسکتے مگر وہ تین نومبر کو ہونے والے حملے کے بعد چھبیس نومبر کو تین سو کلومیٹر دور راولپنڈی جلسے سے خطاب کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ خود حفاظتی ضمانت کی ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس میں قانون اور ضوابط کے مطابق ملزم کی حاضری ضروری ہے۔ عدالت کہتی ہے کہ وہ پیش ہوں مگر وہ نہیں ہوتے۔ جج صاحب فرماتے ہیں کہ وہ رات آٹھ تک کام کرتے ہیں اور خانصاحب رات گئے تک ہی پیش ہوجائیں مگر وہ پھر نہیں ہوتے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ اگلے روز صبح آٹھ بجے آجائیں مگر وہ اگلے روز صبح آٹھ بجے بھی نہیں آتے۔ انہیں دوپہر ساڑھے بارہ بجے کا وقت دیا جاتا ہے اوراس کے بعد دو بجے ان کے وکیل اور ڈاکٹر حاضر ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے وکیل ان کے جعلی دستخطوں کے ساتھ آجاتے ہیں جس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ چار بجے کے بعد ساڑھے چھ بجے کا وقت دیا جاتا ہے اور عمران خان رات ساڑھے سات بجے عدالت میں پہنچتے ہیں۔ یہ عدل و انصاف فراہم کرنے کی واحد مثال ہے جس میں جج، ملزم کو ضمانت فراہم کرنے کے لئے اس کاگھنٹوں نہیں بلکہ دنوں انتظار کرتے ہیں۔ اسے سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ ملزم کی آمد کے لئے سڑکیں خالی کروانے کا مطالبہ ہوتا ہے اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ملزم احاطہ عدالت میں آ گیا ہے اب اسے عدالت میں بلانے سے گریز کیا جائے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک وزیراعظم عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی چڑھ جاتا ہے اور دوسراسینکڑوں پیشیاں بھگتتا ہے اور بار بار جیل بھیجا جاتا ہے۔ ان کے اہل خانہ کو عدالتوں میں اس طرح طلب کیا جاتا ہے کہ ان کی اپنے وکیل سے گفتگو بھی توہین عدالت قرار پاتی ہے۔ایک سینئر صحافی یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ عمران خان کو یہ پروٹوکول کسی اشارے اور کسی حکم کے بغیر دیا جا رہا ہے۔
چلیں، اس دلچسپ کہانی کی طرف چلتے ہیں جس میں عمران خان کے وکیل تسلیم کرلیتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے جعلی دستخط کئے اوراس کے ذریعے وکالت نامہ داخل کیا۔ وہ اس پر معذرت کرتے ہیں اور درخواست واپس لینے پر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک نئی عدالتی نظیر قائم ہوئی ہے کہ اگر آپ کسی اپیلٹ کورٹ کے معزز جج کے سامنے جعلی دستخط کر کے پیش کر دیں تو اس پر معذرت بھی ہوسکتی ہے۔اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کسی حلف نامے، کسی جائیداد کے کاغذات، کسی چیک یا کسی بھی دوسری دستاویز پر جعلی دستخط کر دیں تو اس پر نہ فراڈ کا مقدمہ ہو گا نہ جعل سازی کا، یہ معاملہ اس معافی کے بعد صرف ایک معذرت کا ہو گا جس کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھر جا کے ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔میں نے تجویز دی ہے کہ اس عدالتی نظیر کو قانون پڑھانے والے اداروں کے نصاب میں شامل کردیا جائے تاکہ اس گریٹ ریلیف سے آئندہ بھی وہ لوگ مستفید ہوسکیں جو اس سے مستفید ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیںورنہ اس سے ہٹ کے دوسرے معاملے میں عمومی پریکٹس یہی ہے کہ جب کوئی ملزم ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت مانگتا ہے تواس کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ درخواست لگنے اور آواز پڑنے سے پہلے عدالت میں موجود ہو۔ عدالت میں پیش ہونے والے وکلا بتاتے ہیں کہ اگر آواز پڑ گئی اور ملزم یا اس کے وکیل کو روسٹرم تک پہنچنے میں رش کی وجہ سے تاخیر ہو گئی اور جج صاحب کے منہ سے لفظ ڈسمس نکل گیا تو وہ درخواست ڈسمس ہوگئی۔یہ چند لمحوں کا کھیل ہوتا ہے مگر یہاں سیکنڈوں اور گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں کا انتظار ہوا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے تحریک انصاف کی سیاست پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفے دئیے اور خوشی سے ناچے۔ استعفے واپس لئے تو خوشی سے ناچے۔ اسی طرح اب یہ گرفتاریاں دینے جائیں گے اگر گرفتار ہو گئے تو خوشی سے ناچیں گے ۔ جب ضمانت کروائیں گے تو خوشی سے ناچیں گے ۔ یہ اپنی ہی حکومتیں توڑ کے خوشی سے ناچے سو انہیں ناچنے کا کوئی نہ کوئی موقع چاہیئے چاہے وہ خوشی کا ہو یا غم کا ہو، چاہے اس سے فائدہ ہو یا نقصان ہو رہا ہو۔ عمران خان خود ہر طرح گرفتاری سے بچتے ہوئے اپنے کارکنوں کو گرفتار کروا کے پھر ثابت کر دیں گے کہ وہ بہت بہادر لیڈر ہے۔میں نے کہا کہ وہ انتہائی خوش قسمت، محنتی اور ذہین لیڈر ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کس کو کس طرح ، کب تک اور کتنا استعمال کرنا ہے۔ وہ اپنے حصے کے بے وقوف قدرت سے تحفے میں لے کر آئے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لے کر آئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.