فرانس کی دس سالہ خونریز انارکی جو بعد ازاں انقلابِ فرانس قرارپائی ٗ اپنے اندر لاتعداد سبق آموز کہانیاں اور وارداتیں چھپائے بیٹھی ہے۔ جناب مختار مسعود نے اپنی تصنیف ”آواز ِدوست“ میں فرانس کے ”انقلاب“ کے حوالے سے ایک خوبصورت واقعہ بیان کیا ہے جو واقعی ہمارے لئے نصیحت آموز اورسوچنے کیلئے خیالات کی خوراک ہے۔ انقلاب فرانس جب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تو انقلابیوں کا لیڈر آخری وقت میں شاہِ فرانس سے جا ملا لیکن اُس کے ساتھیوں نے جدوجہد جاری رکھی اور آخر کار بغیرکسی مستقبل کے نقشے کے وہ محل میں داخل ہو کر شاہِ فرانس کے اہل خانہ کا قتل ِ عام کرکے اقتدار میں قابض ہو گئے لیکن اس کے بعد کیا کرنا ہے وہ نہیں جانتے تھے۔وکٹر ہیوگو نے فرانس کی پارلیمنٹ میں انقلابیوں کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے انہیں معصوم قرار دیا۔ اس لڑائی میں اُن کا سابق انقلابی سربراہ بھی شاہ ِ فرانس کی حمایت میں اپنے ساتھیوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ نامکمل انقلاب مکمل ہوا۔ انقلاب فرانس کے بعد اس عظیم جدوجہد کو یادگار بنانے کیلئے انقلابیوں کے مجسمے بنانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام شہید انقلابیوں کی فہرست بنانا تھا تاکہ اُن کے مجسمے بنائے جا سکیں۔ کمیٹی کو اُس وقت انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب اُن کے اُس ساتھی کا نام سامنے آیا جو بیک وقت انقلابیوں کا ساتھی بھی تھا اور اُن کا غدار بھی۔ آخر کار انتہائی سوچ و بچار کے بعد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ”مرتد انقلابی“ کی ایک ٹانگ بادشاہ کے خلاف لڑتے ہوئے کٹ گئی تھی۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ انقلاب فرانس کا حصہ ہے مرنے والے کے باقی وجود سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ایک ٹانگ کا یہ مجسمہ آج بھی فرانس میں ایستادہ کھڑا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے وفائی کی داستا ن سنا رہا ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ انقلاب فرانس کے محرکات وہی تھے جو آج پاکستان میں پوری آب و تاب سے پائے جا رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار ٗ شاہ ِفرانس کی فضول خرچیاں ٗ مہنگائی ٗ جاگیرداروں کی من مرضیاں ٗ خزانے کا خالی ہونا ٗ افسرشاہی کا ظلم و ستم ٗ دیوالیہ ہوتا فرانس اورعام آدمی پر عرصہ حیات کی تنگی بہرحال وہ ہجوم منظم ہو گیا اور لڑائی کی طوالت نے اُنہیں مزیدحوصلہ بخش دیا لیکن انقلاب فرانس کے نتیجہ میں بھی نپولین نے فرانس پر قبضہ کیا اور نپولین اپنی تمام تر صلاحیت کے باوجود آخر کار اپنی قوم کو ”واٹر لو“ کے میدان میں لے گیا۔ جنرل جتنا بھی اچھا ہو ٗ طاقت اُسے مکالمے کے بجائے میدان جنگ میں ہی لے جاتی ہے۔ پاکستان میں آج تک تین بیانیے سب سے زیادہ بکے ہیں۔ امریکی دشمنی ٗ مذہبی نقطہ نظر اور اسٹیبلشمنٹ دشمنی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اِن تینوں بیانیوں پر عوامی پذیرائی حاصل کرنے والے ہمیشہ ان تینوں بیانیوں کے مددگار ٗ معاون اور سہولت کار ہی نکلے۔ حال ہی میں عدم اعتماد کے نتیجہ میں فارغ ہونے والے وزیر اعظم عمران نیازی پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں جو یہ تینوں بیانیے استعمال کرکے اپنی ترکش کے تمام تیر استعمال کر چکے ہیں۔
پاکستان کے سابق آرمی چیف و صدر پاکستان سید پرویز مشرف اُس وقت دنیا فانی سے رخصت ہو گئے جب پاکستانی قوم کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ یوم ِ یکجہتی ِ کشمیر کی تیاری کر رہی تھی۔ پرویز مشرف کی حمایت کرنے کا جرم میں نے تحریک انصاف میں رہ کراُس وقت بھی نہیں کیا جب عمران نیازی مکمل میری دسترس میں تھا میں اور کچھ ساتھیوں نے ریفرنڈم سے پہلے عمران خان نیازی کو مطلع کردیا تھا کہ ہم کسی باغی جرنیل کا ساتھ دینا سیاسی کفر سمجھتے ہیں۔عمران نیازی اور اُس کے موجودہ قریبی ساتھیوں کو
آج بھی یہ بات اچھی طرح یا دہو گی ورنہ زیادہ تر لوگوں نے شیروانیاں اوراچکنیں سلوا رکھی تھیں۔ میرے پاس ریفرنڈم کی شام پولنگ کیمپس میں تحریک انصاف کے ورکروں کی رقص کرتے وہ تصویریں جو اگلے روز اخبارات کے پیجز پر چھپی تھیں آج بھی محفوظ پڑی ہیں۔ پاکستانی سپہ سالاروں کو میر جعفر اور میر صادق کہنے والوں کو اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہیے کہ وہ تو میر جعفروں اور میر صادقوں کے میر جعفر اور میر صادق ثابت ہوتے رہے۔ صرف عمران خان ہی کیوں یہ کہانی تو ایوب خان سے شروع ہوتی ہوئی قمر جاوید باجوہ کے اقبال ِ جرم تک آتی ہے۔ پرویز مشرف کو سزا دینے والے جج کی ذہنی حالت کا معائنہ ہونا چاہیے تھا کہ جس نے صرف آرٹیکل 6اے کے مجرم کو سزا دی اور آرٹیکل 6بی کے ملزمان میں سے کسی کا نام تک نہیں لیا آدھا انصاف پورے عدم انصاف سے بھی زیادہ بے رحم ہو تا ہے۔ آرٹیکل 6کا راگ الاپنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ آرٹیکل 6کی تمام ذیلی شقوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ قارئین کی سہولت کیلئے آرٹیکل 6 کی تمام شقوں کا آسان اور عام فہم ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔اس کے مطالعہ کرکے مجھے بتایا جائے کہ پاکستان کا کونسا سیاستدان ہے جسے پھانسی نہیں ہونی چاہیے؟
آرٹیکل 6ٰٰٰٰٰ:سنگین غداری:
(1) سنگین غدار، کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا کسی اور طریقے سے آئین کو منسوخ یا تخریب کرتا ہے یا معطل کرتا ہے یا التوا میں رکھتا ہے، یا منسوخ کرنے یا ختم کرنے یا معطل کرنے یا ملتوی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا سازش کرتا ہے۔ غیر آئینی طریقے سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
(2) کوئی بھی شخص جو شق (1) میں مذکور کارروائیوں میں تعاون کرنے کی مدد یا حوصلہ افزائی کرتا ہے وہ بھی اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔
3(2A) شق (1) یا شق (2) میں مذکور سنگین غداری کے ایکٹ کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت سے توثیق نہیں کی جائے گی۔
(3) 4مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) قانون کے ذریعے سنگین غداری کے مرتکب پائے جانے والے افراد کی سزا کا انتظام کرے گی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 3 کا اضافہ کرکے اس میں اُن تمام ججوں کا راستہ روک دیا گیا جو باغی جرنیلوں کیلئے اقتدار کا رستہ صاف کیا کرتے تھے۔ اگر مرضی کو درست کرنا ہے تو پھر ایوب خان سے لے کر تا دمِ تحریر پاکستان کے آئین کو توڑنے والوں اور اُن کے معاونوں ٗ مددگاروں ٗ سہولت کاروں سب کو غداری میں سزا دینا ہو گی ورنہ آج صرف پرویز مشرف کو پاکستان میں دفن نہ ہونے کی اجازت دینے کے ٹرینڈ چلانا ٗ فوجی اعزاز کے بغیر دفن کرنا یا ایسے دوسرے واہیات مطالبات کرنا پاکستانی سیاستدانوں کی سیاسی نا پختگی یاپھر گڈ اینڈ بیڈ جنرلز کی تفریق پیدا کرتا ہے۔ ”باغی جرنیلوں“ کی حمایت کے حوالے سے یعنی آرٹیکل 6کے مرتکب ہونے والوں کے حوالے سے اگر تمام شقوں کوغور سے پڑھا جائے تو محمود و غزنوی سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ انصاف ضرور کریں مگر مرضی کا انصاف وقتی طور پر چل جاتا ہے لیکن ایسا انصاف فراہم کرنے والے کو تاریخ کے اوراق پر سیاہ حروف میں لکھا جاتا ہے جس پر آنے والی نسلیں لعن طعن کرتی رہتی ہیں۔پرویز مشرف اور ضیاء الحق نے ایک ہی جرم کیا ہے سو اِن کی سزا بھی ایک ہی بنتی ہے لیکن بدقسمتی سے مغرب کو جاننے کا دعویدار اپنے جلسوں میں جنرل ایوب خان کے دورہ امریکہ کی ویڈیو چلا کر جب بتاتا ہے کہ ایوب کے دور میں پاکستان کی کتنی عزت تھی اور آج جمہوری لوگ کتنے بے توقیر ہوچکے ہیں تودراصل یہ آمریت کی غیراعلانیہ حمایت ہوتی ہے۔ ایوب خان کا بدنام بیٹا پاکستان کی قومی اسمبلی کا سپیکر نواز شریف نے بنایا ایوب خان کے پوتے کو وفاقی وزیر عمران خان نے بنایا ٗ ضیا الحق نواز شریف پر مہربان تھا سو اعجاز الحق پہلے نواز شریف کی کابینہ میں وزیر رہا۔ شاہ محمود قریشی جنرل ضیا الحق کے گورنر پنجاب کا بیٹا ہے جبکہ اسد عمراور زبیر عمر جنرل غلام عمر کے بیٹے ہیں جس پر پاکستان توڑنے کا براہ راست الزام ہے لیکن ایک بیٹا پی ٹی آئی میں ہے اور دوسرا مسلم لیگ نون میں خدمات دے رہا ہے۔یوسف رضا گیلانی ٗ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کا سابق باغی جاوید ہاشمی تو ضیاء الحق کے کارِ خاص تھے۔ بھٹو صاحب ایوب کی آنکھ کا تارا تھے ٗ نواز شریف کی محبت میں ضیا ء الحق اور اُس کے جنرل گرفتار تھے ٗ پرویز مشرف کے سارے ساتھی پاکستان کی ساری جماعتوں میں ہیں اور سب سے زیادہ تحریک انصاف میں ہیں سو ان کے منہ سے کسی ایک آمر کی جزا و سزا کی بات مناسب نہیں لگتی۔ ہمیں اپنی تاریخ 5 جولائی 1977ء سے درست کرنا ہو گی کیونکہ یہ وہ پہلا دن تھا جب پاکستان کے متفقہ آئین کو پہلی بار ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا اور ہر اُس شخص کا بے رحم احتساب ہونا چاہیے جس نے 1977ء کے آئین کے بعد پاکستان کے آئین سے کھلواڑ کیا ہے ٗ اُس کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو ٗ آرٹیکل 6 ٹو بی کا مکمل اطلاق ہونا چاہیے نہ کہ پارلیمنٹ اپنے مجرم بچا کرریاستی ملازموں کو سزا دے کر پھرہنسی خوشی رہنے لگے۔موجودہ حالات میں کوئی ادارہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی وہ حالات ہیں جس میں ایک ٹانگ کا مجسمہ فرانس میں بنا تھا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.