بد حال معیشت اورارباب ِ اقتدار و اختیار کی شاہ خرچیاں

32

چار دہائیوں سے کبھی وفاق میں تو کبھی پنجاب میں اقتدار میں رہنے والے خاندان کے موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ لاعلم تھے کہ ملک کی معیشت اس قدر تباہ تھی۔ یہی بات سابق وزیر اعظم عمران خان بھی کہا کرتے تھے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مسائل کی شدت کسی نوعیت کی ہے۔افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شرکت کرنے والوں نے کبھی اپنا ہوم ورک ہی نہیں کیا کہ وہ اقتدار میں آکر کس قسم کی پالیسیاں بنائیں گے۔ ان کی زیادہ تر قوت اپنے سیاسی حریفوں پر نکتہ چینی پر صرف ہوتی ہے یا پھر انتخابی مہموں کے لیے سرمایہ کاری کرنے والوں کی چاپلوسی۔
مندرجہ بالا پیرا تو خیر تمہید کے طور پر عرض کیا تھا۔ بات کرنا تھی زبوں حال معیشت کی اور ہم پر مسلط سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ رہن سہن کی۔ ہماری قومی معیشت کا دارو مدار، زراعت، صنعت اور تجارت کے بجائے قرض پر منحصر ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ قرض کا بڑا حصہ غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے یا پھر قرضوں کا سود دینے کے لیے۔ پی ڈی ایم کی حکومت اقتدار میں آئی تو معروف صنعت کار اور کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے اپنے ایک انٹرویو میں تجویز دی تھی کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس کی نجکاری کی جانی چاہیے اس سے حکومت کو معقول رقم حاصل ہوگی۔ شائد اسی تجویز پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کراچی اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے بقول حکومت کے کہ جہاں حکومت کو فائدہ ہوگا وہاں مسافروں کو بھی عالمی درجے کی سہولیات میسر ہونگی۔ اسی طرح ایف بی آر کے مطابق ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ 31 دسمبر گزرنے کے بعد بھی تقریباً اڑھائی سو ارب روپے کا ٹیکس وصول نہیں ہوا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دولت مند طبقات نے ٹیکس سے بچنے کے لیے بڑے بڑے وکیلوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو انہیں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے بچانے کے لیے مختلف حربے اور چالیں اختیار کرتے ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق ایف بی آر نے 31مارچ 2023ء تک ہر حال میں اڑھائی سو ارب کا ریونیو اکٹھا کرنا ہے۔
ایک طرف حکومت سرکاری اثاثوں کو آؤٹ سورس کرنے اور ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے اقدامات کررہی ہے۔ لیکن کیا یہ اقدامات کافی ہونگے؟72 ارکان کی جہازی سائز وفاقی کابینہ جس میں 34 وفاقی وزراء، 7 وزرائے مملکت، 4 مشیران اور 27 معاونین شامل ہیں، کے ساتھ حکومت کس منہ سے بچت اور کفایت شعاری کی بات کرتی ہے۔ یہ ہی حال اور لچھن ہماری بیوروکریسی کے ہیں۔ گرامی قدر کامران مگسی نے سوشل میڈیا پر یہ خبر دی کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق 22 ہزار 380 اہم عہدوں پر تعینات افسران نے امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کی شہریت لے رکھی ہے۔
ہمار ے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کو اگر اقتدار پر تسلط قائم رکھنا ہے تو کم از کم اس کی قیمت تو خود ادا کریں۔ یہ کیا ہے کہ آپ اپنے اثاثوں کے تحفظ اور ان میں اضافوں کے لیے سیاست اور اقتدار میں آئیں اور آپ کے ناز نخروں کی قیمت عوام ٹیکس کے پیسوں سے ادا کریں؟ بیوروکریسی جس کا وطنِ عزیز کو بدحالی کے دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار ہے، اس کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کا خرچ پاکستان کے غریب عوام اٹھائیں اور یہ مال سمیٹ کر یورپ اور امریکہ میں موجیں کریں؟ مگر راقم ایسے بیوروکریٹس سے بھی واقف ہے جن کی آمد ن کا ذریعہ صرف اور صرف تنخواہ ہے اور اُن کے لیے ایک گھر بنانا مشکل ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دوہری شہریت حاصل کرنے والوں نے ناجائز ذرائع سے دولت اکھٹی نہ کی ہو۔
ڈالر کی طلب اور رسد کا ہماری معیشت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔اس وقت ملک میں ڈالر کی قلت ہے۔ مگر اس کے باوجود ہماری لاڈلی بیوروکریسی کی ترجیحات ملاحظہ فرمائیں کہ نیشنل مینجمنٹ کالج لاہور کے مختلف سروسز گروپوں سے تعلق رکھنے والے گریڈ 20 کے 52 افسران کو مطالعاتی دوروں پر بیرون ملک بھیجا جارہا ہے۔ جس پر فضائی ٹکٹ کے علاوہ تقریباً چار ہزار ڈالر فی کس ٹی اے ڈی اے بھی دیا جائے گا۔ ملک میں ڈالر کی قلت کو دیکھتے ہوئے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ دورے ملتوی یا مؤخر کردیے جاتے مگر جن کی دورانِ ملازمت اور ملازمت کے بعد بھی ترجیح غیر ممالک ہی ہوں ان سے اور کیا اُمید کی جاسکتی ہے۔
ہمارا صنعت کار اور تاجر بھی ملک کی معاشی جڑوں کھوکھلا کرنے میں کسی سے کم نہیں ہے۔ اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ ملک کی خراب معاشی صورتحال کے باعث وفاقی حکومت نے درآمدی بل کم کرنے کے لیے پُرتعیش اشیا کی پر بھاری امپورٹ ڈیوٹی عائد کررکھی ہے۔ ہمارے کاروباری حضرات نے بجائے اس کے کہ حکومت کو پوری ڈیوٹی ادا کرکے مال درآمد کریں اور جو طبقہ ان اشیاء کو استعمال کرتا ہے وہ ان کی قیمت ادا کرے اور یوں حکومت کو آمدن حاصل ہو۔ مگر افغان ٹریڈ کے چینل نے ہمارے تاجروں کی یہ مشکل بھی آسان کردی۔ طالبِ علم اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغان ٹریڈ ہو یا افغانی پاکستان کے لیے ایک زہر کی صورت رکھتے ہیں۔ ہمارا تاجر حوالہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک پیسے بھیجتا ہے اور افغان ٹریڈ کے نام پر یہ مال پاکستان منگوایا جاتا ہے اور ٹرکوں کے ذریعے افغانستان جاتا ہے اور وہاں سے چھوٹے ٹرکوں کے ذریعے واپس پاکستان آجاتا ہے۔جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس گھناؤنے عمل میں ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار شریک نہ ہوں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ لگژری اشیا پر پابند ی کے باوجود ہر بڑا سٹور اور دوکان ان اشیا سے بھری پڑی ہے۔
ٹیکس اکٹھا کریں،قومی اثاثوں کی نجکاری کریں یا پھر سیاسی مفادات کے نام پر غیر ملکی سانپوں کو ملک میں پناہ دے کر کاروبار اورزمینیں انہیں فروخت کرتے چلے جائیں۔ جب تک سیاست اور وسائل پر قابض جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا تسلط نہیں توڑا جائے گا اور اقتدار میں سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والا متوسط طبقہ نہیں آئے گا ملک کے وسائل سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیوں اور نازنخروں پر خرچ ہوتے رہیں گے۔ قومی وسائل بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں ضائع ہوں گے اور ہماری قسمتوں پر مسلط یہ سیاستدان اور بیوروکریسی ہجرت کے مقدس نام پر فرار کی راہ اختیار کرکے بیرون ملک جا بسے گی جیسا کہ ہوتا چلا آرہا ہے اور ہم جناب افتخار عارف کا یہ شعر پڑھتے رہیں گے کہ:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

تبصرے بند ہیں.