کمی کمین عوام کیا کریں

20

ہم ایسے جاہل اور شعور سے عاری لوگ سر پٹختے رہے کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی الٹا ہمارا تمسخر اڑایا جاتا رہا کہ کیا احمقانہ باتیں کرتے ہو بھلا اب کیا گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ کسی کو حکومت سے اتار دینا اور وہ بھی سخت کشیدگی کے عالم میں اور بات گالم گلوچ تک پہنچ جائے یاد نہیں کہ شیری مزاری کی گرفتاری پر ان کی بیٹی نے جنرل باجوہ کے لئے کیسی زبان استعمال کی تھی کیا اس کے بعد کوئی ہوش مند انسان کسی گڑ بڑ کا سوچ بھی سکتا ہے۔ دلائل بڑے مضبوط تھے اور لا ریب کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کی چھٹی حس آپ کو اصل صورت حال تک درست رہنمائی کر دیتی ہے جسے آپ کا ذہن قبول بھی کر لیتا ہے لیکن زمینی حقائق کے منظر نامہ پر ایسی منظر کشی کر دی جاتی ہے کہ آپ لاکھ کوشش کے باوجود بھی دنیا والوں کو سمجھا نہیں سکتے۔ ایسی صورت میں سیانے کہتے ہیں کہ خاموشی بہتر ہوتی ہے اور وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ ہم خاموش تو نہیں ہوئے کہ یہ ہماری فطرت نہیں ہے لیکن حقیقت اس حد تک تلخ ہو گی اس کا احساس تک نہیں تھا اور ذہنی طور پر ہم خود کئی بار الجھ کر رہ گئے کہ اگر ایسا ہے تو ایسا کیوں ہوا اور اگر ایسا ہوا تو ایسا کیوں نہیں ہوا۔ مختلف سوالات تھے کہ جن کے جواب نہیں مل رہے تھے یا یہ کہہ لیں کہ حالات و واقعات کی کڑیاں غائب ہو جاتی تھیں اور کوشش کے باوجود بھی گمشدہ کڑیاں مل نہیں پاتی تھیں تو تھک ہار کر یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے اور اس کا اظہار بھی ہم اپنی تحریروں میں کرتے رہے ہیں کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصہ کی آشیر باد حاصل ہے لیکن ذہن کے کسی کونے میں اس بات کی باز گشت سنائی دیتی رہتی تھی کہ ایسا بھی ممکن ہے اور اسی سوچ کے تحت ہم کہتے تھے کہ آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد حالات میں بڑی تبدیلیاں آنا شروع ہو جائیں گی اور عمران خان اور ان کے ہینڈلرز کو خاموشی کا سگنل دے دیا جائے گا اور عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف اب تک اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو وہ بھی آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد فطری انداز میں برق رفتاری کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھنا شروع کر دے گی لیکن جتنی بھی الجھنیں تھیں وہ سب خدا بھلا کرے مونس الٰہی کا جن کے ایک بیان سے سب دور ہو گئیں اور سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ پنجاب میں عدم اعتماد کے موقع پر ہمیں باجوہ صاحب نے عمران خان کا ساتھ دینے کا کہا تھا۔پنجاب میں عمران خان کا ساتھ دینے کا اقدام اور اس کے مضمرات اس قدر زیادہ ہیں کہ یقین جانیں اس پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ یاد کریں کریں 25مئی کو کیا ہوا تھا اور پورے پنجاب سے لانگ مارچ کے لئے چند سو بندے بمشکل نکل پائے تھے لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد مرکز اور پنجاب کے درمیان جو کشیدگی اور اس کے نتیجہ میں ملک کے اندر سیاسی بے یقینی کی جو فضا پیدا ہوئی اس نے ملک کی معیشت کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ اس لئے کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تو تحریک انصاف کی حکومتیں پہلے سے ہی موجود تھیں اور بلوچستان میں بھی ان کی حمایت یافتہ حکومت تھی تو پھر ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں حکومت بنوانے کی کیا وجہ تھی۔ جو لوگ ایسا کام کر رہے تھے کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی تین سال آٹھ ماہ کے عرصہ میں کس طرح ملک کی معیشت کا بیڑاغرق ہوا ہے اور اس کے بعد چوروں اور ڈاکوؤں کی سندھ میں حکومت تو سیلاب ایسی بڑی ناگہانی آفت کے باوجود بھی اپنے پاؤں پر کھڑی تھی لیکن ایمانداروں صادق اور امین کی خیبرپختونخوا حکومت
دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو کیا پنجاب میں تحریک انصاف کو حکومت دینے کا مقصد یہی تھا کہ پنجاب صوبہ بھی ایمانداروں کی نام نہاد ایمانداری کی بھینٹ چڑھ جائے۔ فرض کر لیں کہ اگر یہ مداخلت نہ ہوتی توپنجاب میں حکومت کس کی ہوتی اور ملک میں جو سیاسی کشیدگی کی انتہا ہے اس کا بھی کہیں کوئی ذکر تک نہ ہوتا اور اب تک معیشت کافی حد تک سنبھل چکی ہوتی لیکن شاید کچھ اہم ہستیوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں اور اب تو بہت سے اور معاملات جو سمجھ نہیں آ رہے تھے ان کے متعلق بھی خدشات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے اور ان پر بڑے سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں تحریک انصاف کو شکست فاش ہوئی تھی اور یہ بھی ذہن میں
رہے کہ ہر حکومت پہلے مرحلہ میں ان علاقوں میں انتخابات کراتی ہے کہ جہاں پر اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے لیکن پہلے مرحلہ میں شکست فاش کے بعد انتہائی حیرت انگیز طور پر دوسرے مرحلہ میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ اسی طرح عمران خان پوری کوشش کے باوجود بھی پہلے اور پھر دوسرے لانگ مارچ اور 70سے زائد جلسوں میں کہیں کوئی قابل ذکر تعداد میں بندوں کو اکھٹا نہیں کر سکے لیکن حیران کن طور پر پنجاب میں ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف پندرہ سیٹیں جیت کر ایک قسم کا کلین سویپ کرتی ہے اور پھر کچھ ایسے ہی نتائج قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں ہونے والے انتخابات کے تھے۔ ان نتائج کے حوالے سے بھی ذہن میں زبردست الجھن تھی لیکن مہنگائی کارڈ کو بیچ میں لا کر تحریک انصاف کی مقبولیت کے پروپیگنڈا کے اس قدر ڈھول پیٹے گئے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی لیکن اب یہ ساری الجھنیں سلجھنا شروع ہو گئی ہیں اور جو گمشدہ کڑیاں تھیں وہ ملنا شروع ہو گئی ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حقائق پر جو دبیز پردے ڈال دیئے گئے تھے وہ اٹھتے چلے جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا چیئر مین اگر اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیتا ہے تو اسے دو سال کے لئے ملک چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ایک ڈان لیکس ہوتی ہے تو ایک وفاقی وزیر پرویز رشید، ایک مشیر طارق فاطمی اور ایک بیوروکریٹ کی قربانی دینا پڑ جاتی ہے اور یہ صورت حال اب بھی تبدیل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو مستعفی ہونا پڑتا ہے اور حیرت انگیز طور پر جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اعظم نذیر تارڑ صاحب کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا لیکن دوسری جانب گذشتہ نو ماہ سے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس پر اس قدر تحمل کہ عقل حیران تھی لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ اب سب کچھ سمجھ میں آنا شروع ہو گیا ہے لیکن ہماری دعا ہے کہ ہم جو سمجھ رہے ہیں یہ سب غلط ہی ہو اور اگر یہ غلط نہیں تھا تو اب قیادت کی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کے جارحانہ موقف میں جو حیران کن تبدیلیاں آنا شروع ہو چکی ہیں یہ بلا وجہ نہیں ہیں اس کے بعد حالات میں بہتری کی امید پیدا ہو گئی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک جلد ہی مشکلات کی دلدل سے نکل آئے گا۔

تبصرے بند ہیں.