معاشرے میں ہر شعبے کے اہل و ایماندار لوگوں کی ناقدری بڑھتی جا رہی ہے، اسی لئے عزت دار لوگ یہاں سے نکلتے جا رہے ہیں، اس کے برعکس بے توقیر و بے شرم لوگ ”کماؤ عہدوں“کے حصول کے لئے اس حد تک گر جاتے ہیں پھر اْٹھنے کا نام نہیں لیتے، اگلے روز میری موجودگی میں ایک سیاسی افسر نے اپنے سے بڑے گریڈ کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کو اپنے موبائل فون کا سپیکر آن کر کے کال کی اْسے ایسے مخاطب کیا جیسے وہ اْس کا چپڑاسی ہو، اکیسویں گریڈ کا وہ پولیس افسر آگے سے ”کھی کھی“ کر رہا تھا، اپنی بے عزتی پر ہنس رہا تھا، ایسے لوگوں کی کوئی عزت اس لئے نہیں کرتا کوئی اْن کی عزت کرے اْنہیں بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے؟۔۔ سیاسی افسر کی اپنے سے بڑے گریڈ کے پولیس افسر کے ساتھ بدسلْوکی بھی قابل مذمت ہے مگر اس سے بڑی لعنت کا حق دار وہ ہے جو بے عزتی کروا کے”کھی کھی“ کرتا رہا۔۔”کماؤ عہدوں“ کی لالچ میں مبتلا افسران نے سروس سٹرکچر کو برباد کر کے رکھ دیا ہے، بڑے بڑے باوقار عہدوں پر ایسے ایسے بے وقار بونے بیٹھے ہیں اور ایسے ایسے گھٹیا کام وہ کر رہے ہیں شرم آتی ہے اور دْکھ ہوتا ہے مْلک کن بے شرموں اور بے غیرتوں کے ہاتھوں میں ہے۔۔ سرکاری اْلوؤں اور گدھوں نے جو حال کر دیا، اس مْلک کا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا اب ناممکن دیکھائی دیتا ہے، البتہ بددیانتیوں اور نااہلییوں کی سیاہ رات میں کوئی جگنو دیکھ کر ایک اْمید سی بندھ جاتی ہے کوئی نہ کوئی راستہ ایسا ضرور ملے گا جو کسی عظیم منزل کی طرف لے جائے گا۔۔ کچھ لوگوں کو یہ فکر ہے سیاسی و اصلی حکمرانوں کی مسلسل بددیانتیوں اور نااہلییوں سے مْلک کہیں ختم ہی نہ ہوجائے، میری فکر اْن کی فکر سے زیادہ بڑی ہے کہ مْلک کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے۔۔ کامران علی افضل اور فیصل شاہکار جیسے افسران ”جگنو“ ہیں جو ایک بھٹکے ھوئے کریمینل اور کرپٹ سسٹم کو نیا راستہ فراہم کرنا چاہتے تھے، یہ وہ ”چراغ“ ہیں جو آندھیوں میں جلتے رہے، سمندر میں رہ کر مگر مچھوں سے بیر لیتے رہے، افسوس ایسے لوگوں کی قدر نہیں کی گئی، اندھا دْھند سیاسی مداخلتوں پر اْن میں سے پہلے ایک چْھٹی پر گیا پھر دوسرا بھی چلے گیا، ظاہر ہے اْن کے پاس دو ہی راستے تھے، ایک راستہ یہ کہ اپنے عہدے سے مسلسل چمٹے رہتے جیسے بیشمار افسران اپنی عزت آبرو پر کمپرومائز کر کے چمٹے رہتے ہیں، دوسرا راستہ یہ تھا وہ ایک غلیظ سسٹم سے خود کو الگ کر لیتے، ایسا عہدہ چھوڑ دیتے جس کے حصول کے لئے سینکڑوں افسران اپنے ”آقاؤں“ کے تلوے چاٹنا ”اعزاز“ سمجھتے ہیں۔۔ ناقدری کا یہاں یہ عالم ہے ایک اعلیٰ ترین پولیس افسر فیصل شاہکار جنہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنا ایڈوائزر مقرر کیا ہم اْن کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ اْٹھانا تو دْور کی بات ہے اْن کی صلاحیتوں کا اعتراف تک کرنے سے گریزاں ہیں، اْن سے پہلے اس عہدے پر یورپین اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افسران تعینات رہے، فیصل شاہکار کا ایڈوائزر مقرر ہونا اقوام عالم میں اْن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے، اْنہیں تو اللہ نے مزید عزتوں سے نواز دیا اور ہمیں مذید ذلتوں میں دھکیل دیا کہ دْنیا اب ہم پر مزید لعنت بھیجے گی اپنے باصلاحیت لوگوں یا اپنے اصل ہیروز کے ساتھ کیا سلْوک ہم کرتے ہیں۔۔ وہ ایک عظیم پولیس افسر ہیں جن کے دامن پر گندگی کی ایک چھینٹ نہیں، وہ جس عہدے پر رہے اْس کی گریس بڑھ گئی۔۔ اللہ جانے جب سے پاکستان بنا ایسے کتنے عظیم لوگوں کوہم نے ضائع کر دیا، اْن کی صلاحیتوں سے ہم نے فائدہ اْٹھایا ہوتا پاکستان ترقی کی عظیم ترین منزل پر آج سے کئی برس پہلے ہی پہنچ گیا ہوتا، اس سے قبل اسی طرح کا سلْوک عارف نواز خان اور راؤ سردار علی خان جیسے دیانتدار اور عظیم پولیس افسروں سے کیا گیا، امجد جاوید سلیمی کو بھی بطور آئی جی پنجاب اپنا ٹینیور مکمل نہیں کرنے دیا گیا، وہ اپنے ماتحتوں کے لئے اپنے دل میں اتنی نرمی رکھتے تھے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کینسر کے ایک مریض انسپکٹر کی مدد کے لئے اپنے اختیارات کی آخری حد تک وہ چلے گئے تھے۔۔ آئی جی پنجاب کے عہدے کی جتنی تذلیل پچھلے چار پانچ برسوں میں ہوئی شاید ہی اتنی کبھی ہوئی ہو، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور مجھے نہیں لگتا کبھی رْکے گا سوائے اس کے محکمہ پولیس میں فیصل شاہکار جیسے بے نیاز افسران کی سوچ پروان چڑھ جائے۔۔ خان صاحب کے زمانے میں ایک اور گریس فْل اور بیوٹی فْل پولیس افسر محسن بٹ کو بھی آئی جی پنجاب بنانے کا سوچا گیا، مگر ہوسکتا ہے پھر یہ سوچ کر اْنہیں آئی جی پنجاب نہ بنایا گیا ہو کہ بٹ صاحب غلط کام کرنے سے صرف انکار نہیں کریں گے، دو چپیڑیں بھی ساتھ لگا دیں گے، شْکر ہے اللہ نے اْنہیں آزمائش میں نہیں ڈالا اور اْن کی وجہ سے ایک نکمے شخص بْزدار کو بھی آزمائش میں نہیں ڈالا، اب وہ ڈی جی ایف آئی اے ہیں اور ایف آئی اے خوش قسمت ہے ایک غیر متنازعہ افسر اْس کا سربراہ ہے۔۔ سْنا ہے فیصل شاہکار کے بعد وفاقی حکومت آئی جی پنجاب کے عہدے کے لئے رائے محمد طاہر کے نام پر غور کر رہی ہے، وہ بھی ایک انتہائی پروفیشنل، محنتی اور انسان دوست پولیس افسر ہیں، وہ اگر اس عہدے پر تعینات ہوئے اور اپنا ٹینیور پورا کرنے کی اْنہیں مہلت مل گئی مجھے یقین ہے محکمہ پولیس کو ایسی جدید ترین سہولتوں سے ہم آہنگ کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں گے وارداتیوں کو سر بچانے اور سر چْھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔۔ دوسری طرف کامران علی افضل جیسے افسران ہیں، چیف سیکریٹری کے عہدے پر ایسے افسران ماضی میں بھی ضرور رہے ہوں گے مگر گریس کا جو معیار کامران علی افضل نے بہت ہی مختصر عرصے میں مقرر کیا اْس کا الگ مقام ہے، ماضی میں ایسے ایسے چیف سیکریٹری ہم نے دیکھے سیاسی و اصلی حکمرانوں کے باقاعدہ ”دْم چھلے“ بنے ہوتے تھے، ایک نْون لیگی چیف سیکریٹری نے پلاننگ کر رکھی تھی ریٹائرمنٹ کے بعد نْون لیگ کے ٹکٹ پر وہ الیکشن لڑے گا، اس مقصد کے لئے بطور چیف سیکریٹری پنجاب اپنے تمام ناجائز اختیارات استعمال کر کے اپنے علاقے کے لئے ترقیاتی فنڈز کے اْس نے انبار لگا دئیے، قدرت کے مگر اپنے ہی فیصلے ہیں، اب کہیں نام و نشان تک اْس کا نہیں ملتا، نمائشی ایماندار تھا، منتقم مزاج بھی رج کے تھا، ایسے افسران ریٹائرمنٹ کے بعد گْمنامیوں کی ایسی دلدل میں دْھنس جاتے ہیں پھر پتہ ہی نہیں چلتا وہ زندہ ہیں یا مر کھپ گئے ہیں۔۔ ماضی کے ایک اور چیف سیکریٹری کی حالت یہ تھی اْس نے اپنے دفتر کو”پب“ بنایا ہوا تھا، ”عمران لنگیاں پباں بھار“۔۔ پاکستان کی اصل تباہی کا باعث ایسے ہی کْچھ بے شرم لْٹیرے شرابئے کبابئے افسران بنے، سیاستدان تو ایسے ہی بدنام ہیں، لْوٹ مار کے جتنے طریقے افسر شاہی کو آتے ہیں، جتنی وارداتیں وہ ڈالتے ہیں سیاستدان تو اْن کے مقابلے میں ”فرشتے“ ہیں۔۔ البتہ کامران علی افضل جیسے افسران کسی عہدے پر رہیں نہ رہیں دلوں میں رہتے ہیں، جیسے جی ایم سکندر آج تک دلوں میں ہیں جیسے مرحوم قاضی آفاق حسین ہیں۔۔
تبصرے بند ہیں.