جمہوریت بدرتین انتخاب ہے ۔۔۔۔۔۔

57

اس وقت ملک میں ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے آرمی چیف کی تعیناتی ہر کوئی متعلقہ اور غیر متعلقہ شخص اس پر اپنا تجزیہ دے رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دیواروں کو بھی کان کے بجائے زبان لگ گئی اور وہ بھی آرمی چیف کی تعیناتی بارے سرگوشیاں کر رہی ہیں شاید آپ کو میرا موضوع نقار خانے میں طوطی کی آواز لگے لیکن پھر بھی توجہ دیجئے گا۔ میرا آج کا موضوع ہے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینا قارئین کو میرے کالم کا عنوان دیکھ کر اچنبھا ہوا ہو گا لیکن درحقیقت جس طرح ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت کا مطلب محض اقتدار کے ہر شعبے کا حصول اور وہ بھی تمام اصولوں کا پامال کرتے ہوئے اپنا فرض سمجھ لیا ہے تو ان حالات میں جمہوریت بہترین انتقام کے بجائے جمہوریت بد ترین انتقام ہی بنتا ہے۔ مقامی حکومتیں کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہوتی ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتیں اس سے بھاگتی ہیں اور جب تک اپنے زیر اقتدار صوبوں میں حالات اپنی مرضی کے مطابق نہ ڈھال لیں اس وقت ان انتخابات سے شکست کے خوف سے بھاگتی ہیں۔ یہ رویہ شرکت اقتدار کا نہیں بلکہ اقتدار پر قبضے کو جنم دیتا ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں ہمیشہ اس نشے کی لت میں مبتلا رہی ہیں۔ خبروں کے مطابق سندھ حکومت نے تو بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قوانین ہی تبدیل کر دیے ہیں کہ جس کے بعد الیکشن کمیشن کے لیے سندھ حکومت کی منشا کے بغیر یہ انتخابات کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے دیہی سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں تو اپنے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اپوزیشن کو چھوڑیں ان انتخابات کی شفافیت پر بھی پیپلز پارٹی کی اپنی اتحادی جماعت نے بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سندھ حکومت نے بوجوہ کراچی اور حیدر آباد میں انتخابات نہیں کرائے اور مختلف حیلے بہانوں سے ان اضلاع میں انتخابات ملتوی کراتی رہی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ اضلاع ایم کیو ایم یا اپوزیشن کی جھولی میں جا سکتے ہیں۔ اب چار و ناچار عدالتی فیصلے کے بعد جنوری 2023 میں ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا ہے لیکن اپوزیشن سمیت ایم کیوایم کی لیڈر شپ بھی ان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پُر امید نہیں اس کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ اگر کراچی کی بلدیاتی حکومت پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئی تو اس سے پیپلز پارٹی کی سبکی ہو گی جس کا یقینا اثر آئندہ عام انتخابات پر بھی پڑے گا۔ اسی لیے پیش بندی کے طور پر پیپلز پارٹی ان انتخابات میں ممکنہ طور پر ایم کیو ایم کے ساتھ اتحادی کے طور پر لڑنا چاہتی ہے لیکن ایم کیو ایم کو اس حوالے سے کچھ خدشات ہیں اور وہ ماضی کے تجربات کے پیش نظر پیپلز پارٹی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت بہترین انتقام پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن شہید بے نظیر بھٹو کا ہی نعرہ تھا لیکن زرداری کی پیپلز پارٹی نے ہر قیمت پر اقتدار کے حصول کے فارمولے کے پیش نظر اس کا مفہوم ہی بدل دیا۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے کچھ ذمہ داران سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اس وقت ایم کیو ایم جال میں پھنسی تڑپتی مچھلی کی طرح ہے اور اپنے اقدامات کی وجہ سے وہ جال میں مزید الجھتی
چلی جا رہی ہے اور پیپلز پارٹی نے اسے وہاں آن کھڑا کیا ہے کہ جہاں سے واپسی کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ پیپلز پارٹی کی طرف ہاتھ بڑھانا دوسری صورت میں اس کی سیاسی موت نوشتہ دیوار ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے اور ان کا ہدف بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم یا ان کا ممکنہ اتحاد ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے ایک سرکردہ لیڈر کا کہنا ہے کہ یقینا وہ ممکنہ حکومتی اتحاد یا اس میں شامل جماعتوں کو شکست دینے کے لیے کسی بھی جمہوری قوت سے اتحاد کے امکانات واضح ہیں لیکن اس کا فیصلہ فریقین کے رویوں اور وقت آنے پر ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کا بلدیاتی انتخابات کا ہدف بھی پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور وفاق میں شامل متحدہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ لیکن وہ بھی سندھ میں ان انتخابات کے بروقت انعقاد اور شفافیت کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے البتہ وہ ہر قیمت پر انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ ان کی سینئر قیادت کا ان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن یا کسی ممکنہ اتحاد کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کے حوالے سے کہنا تھا کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے لیکن اس کا فیصلہ اعلیٰ قیادت نے کرنا ہے۔
کراچی میں کچھ سیاسی جماعتوں کے پاکٹس بھی موجود ہیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) جمعیت علما اسلام (جے یو آئی)، تحریک لبیک، ایم کیو ایم حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی بھی شامل ہے۔ لیکن ان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر نظر آتا ہے۔ اے این پی اور جے یو آئی کی مقامی قیادت سے جب ان انتخابات کے حوالے سے بات کی تو ان کا خیال تھا کہ پییلز پارٹی اور ایم کیو ایم ابھی خود کشمکش کا شکار ہیں کل کا نہیں پتہ لیکن فی الحال اتحاد کے امکانات کم ہیں کیونکہ ان انتخابات میں اتحاد کی شکل میں جانے کی صورت میں قیادت پر عام انتخابات میں بھی اتحادکی صورت میں جانے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ جبکہ فی الوقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم صرف ان نشستوں پر اتحاد کیلئے رضامند ہے جن حلقوں میں ان دونوں کے امیدواروں کو شکست ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فارمولے کو ہماری سندھ کی قیادت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے اور غالب امکان ہے کہ آئندہ آنے والے عام انتخابات میں وفاق میں اتحادی جماعتیں سولو فلائٹ لیں۔
خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اس میں صوبے کی حکمران جماعت یعنی تحریک انصاف کو خاطر خواہ نتائج نہیں مل سکے لیکن یہ سہرا ان کو جاتا ہے کہ ان انتخابات کی شفافیت پر اپوزیشن نے بھی انگلیاں نہیں اٹھائیں۔
اب رہ گیا پنجاب تو پنجاب میں شفاف بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے حکمران جماعتیں ہمیشہ خوفزدہ رہی ہیں دوسرے ان انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی آخر میں پارٹیاں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہی۔ گو کہ وہ اقتدار اور حکومتی اثر رسوخ یا دباؤ کی وجہ سے انتخابات میں آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر اپنی فتح یقینی بنا لیتی ہیں۔ لیکن اس وقت پنجاب کی مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے ان انتخابات کا انعقاد نظر نہیں آ رہا تاوقتیکہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے کوئی حکم آ جائے۔ دوسرے پی ٹی آئی کا تمام تر فوکس اس وقت لانگ مارچ ہے اس لیے وہ ابھی کسی اور سیاسی سرگرمی میں الجھنے کو تیار نہیں۔ اس وقت پنجاب کی اپوزیشن جماعت یعنی مسلم لیگ ن بھی اسی گرداب میں پھنسی ہے اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں کیونکہ انہیں پی ٹی آئی نے وفاق میں الجھا رکھا ہے اور ان کا فوکس فی الحال وفاقی سیاست ہے۔ اس لیے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نہ ہی سمجھیں۔
میرے گزشتہ کالم کا عنوان تھا ”توشہ خانہ کے حمام میں سب ننگے ہیں۔۔“ لیکن ادارتی صفحات کے سب ایڈیٹر نے پتہ نہیں اس محاورے میں کیا ننگا دیکھ لیا کہ عنوان کو ”توشہ خانہ کا حمام“ میں بدل دیا۔ کئی قارئین نے بھی وٹس ایپ پر اس طرف توجہ دلائی کہ اصل عنوان جو میں نے اوپر بیان کیا وہی موزوں ہے۔ شاید متعلقہ سب ایڈیٹر کو نہیں علم کہ ”اس حمام میں سب ننگے“ اردو کا محاورہ ہے اور روزمرہ کے استعمال میں آتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ محاورے کو پاجامہ پہنا کر متعلقہ صاحب کے کس جذبے کی تسکین ہوئی ہے لیکن اس سے کالم کی سینس مر جاتی ہے۔ میرے ساتھ پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے بہر حال زاہد رفیق صاحب نے یقین دلایا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
اس کالم کے حوالہ سے اپنی رائے 0300-4741474 پر وٹس ایپ کیجئے۔

تبصرے بند ہیں.