آصف علی زرداری کے قدم بڑے مبارک ثابت ہوئے ادھر انھوں نے اپنے قدم وزیر اعظم ہاؤس رکھے اور اس کے فقط چند گھنٹوں بعد ہی جس کا ایک دنیا کو انتظار تھا وہ سمری وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئی ورنہ تو اس سمری اور نئے آرمی چیف کے تقرر کو لے کر ہند سندھ سات سمندر پار کیا کیا افسانے نہیں گھڑے گئے وزیراعظم طبیعت کی ناسازی کے سبب لندن میں دو دن کیا رک گئے کہ کہانیاں بن گئی اور جب لندن سے چلے تو کہا گیا کہ لندن کی عدالت کی جانب سے سزا کے فیصلے کے بعد آنا ہی تھا ورنہ لندن پولیس نے تمبو کر لینا تھا حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ ڈیلی میل کی ایک خبر پر میاں شہباز شریف نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہوا تھا جس میں التوا مانگنے پر عدالت نے شہباز شریف اور ان کے داماد کو جرمانہ کیا جو 23 نومبر تک ادا کرنا تھا اور کیس کی تاریخ ستمبر 2023 تک ملتوی کر دی اور تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ اگر سزا بھی ہو جاتی تو ویانا کنونشن کی موجودگی میں کسی ملک کے وزیراعظم تو دور کی بات ہے کسی سفارت کار کو گرفتار کرنا بھی کوئی اتنا آسان نہیں ہے اور پھر نواز شریف کی یورپی دورے پر روانگی کو بھی فرار کا نام دیا گیا چونکہ ہمیں تماشے بہت پسند ہیں اس لئے گلشن کے کاروبار میں اکثر تیزی کا رجحان رہتا ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ بالآخر نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری ایک طویل انتظار کے بعد وزیراعظم ہاؤس پہنچ ہی گئی اس سمری میں چھ سینئر ترین جنرلز کے نام ہیں جن میں سب سے اوپر سر فہرست وہ نام ہے کہ جس سے کسی کی گذشتہ کئی ماہ سے کانپیں ٹانگ رہی تھیں اور اسی نام کی وجہ سے نئے آرمی کی تعیناتی پر بریکنگ نیوزوں پر کھڑکی توڑ رش نظر آ رہا تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر اب تک جو سارا کھڑاک ہو رہا ہے وہ اسی تقرر کا مرہون منّت ہے اور اسی کی وجہ سے خان صاحب گذشتہ 9 ماہ سے جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں اور اب نوبت دھرنے تک پہنچ چکی ہے یعنی عمران خان کے نقطہ نظر سے اس معاملہ میں
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
خان صاحب نے اس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا مذہب سمیت ہر طرح کے کارڈ کھیلے دھمکیاں لگائیں نیوٹرل کی تشریح عام فہم زبان سے لے کر ٹپوری زبان تک میں جانور کہہ کر کی گئی دن میں جلسوں کے اندر ان کے لئے سیاسی گالیاں اور رات کے اندھیروں میں چھپ چھپ کر ملاقاتیں اور سوشل میڈیا پر منفی جھوٹے پروپیگنڈا کے طوفان تک ہر حربہ آزمایا لیکن بات نہیں بنی اور جس سمری کو رکوانے کے لئے سو جتن کئے تھے وہ ہونی آخر ہو کر رہی لیکن سمری کا وزیراعظم ہاؤس پہنچنا اس عمل کے مکمل ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک اولین
مرحلہ ہے جو سرانجام پایا ہے ابھی مزید کئی کٹھن مراحل باقی ہیں اسی وجہ سے تین دن پہلے بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر عارف علوی کو متنبہ کیا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر پر وہ طرز عمل نہ اختیار کیا جائے جو عدم اعتماد کے دوران اور بعد میں گورنروں کی تعیناتی پر اپنایا تھا کچھ لوگوں نے بلاول بھٹو کی اس بات کو دھمکی سے تشبیہ دی لیکن تحریک انصاف اور اس کی قیادت کا ماضی اور حال کی سیاست میں جو طرزعمل نظر آ رہا ہے اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر کی تعیناتی پر پچیس دن تک تاخیر کرنا الگ بات ہے لیکن یہ آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ ہے کوئی مذاق نہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عمران خان جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا اول و آخر مقصد ہی آرمی چیف کا تقرر ہے تو کیا وہ یہ سب آسانی سے ہونے دیں گے اگر تو اندر کھاتے سمجھا دیا گیا ہے تو الگ بات ہے ورنہ عمران خان جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے اور ملک و قوم کے مفاد اور وقار کی پروا کئے بغیر وہ آخری حد تک جائیں گے۔
اس میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صدر سمری کو روک لیں حالانکہ آئین میں بڑا واضح ہے کہ یہ اختیار کلی طور پر وزیراعظم کا ہے لیکن وہ اس میں تاخیر کر کے ملک میں ایک بحران پیدا کر سکتے ہیں اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک و قوم کی بڑی بدقسمتی ہو گی ہمیں اس تعیناتی میں رتی بھر شک نہیں کہ ہو جانی ہے اور وہی آرمی چیف ہو گا جسے وزیراعظم مقرر کریں گے لیکن ہمارے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں اس لئے کہ 28 اکتوبر کو شروع ہوا لانگ مارچ رینگ رینگ کر جس حد تک ہو سکا تاخیر کی گئی لیکن پھر بھی اسے راستے میں ہی ختم کر دیا گیا اس لئے کہ بندے تھے اور نہ راستے میں کوئی شہر بچا تھا اور اس کے بعد بھی نام نہاد مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ کے اعلان سے حتی الوسع گریز کیا گیا اور 19 تاریخ کو بتایا گیا کہ 26 کو سب راولپنڈی پہنچیں تو یہ تاریخ اور تعیناتی کا وقت ایک ہونا کیا اتفاق ہے خدا کرے کہ سارا عمل خوش اسلوبی سے ہو جائے لیکن خان صاحب کی فطرت اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے دیکھتے رہیں گے وہ دھرنے کا پروگرام تو بتا چکے ہیں لیکن کسی قانونی اور آئینی جواز کے بغیر بھی وہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے جانے کی انتہائی حماقت بھی کر سکتے ہیں بہرحال خان صاحب تو جو کچھ کریں گے سو کریں گے لیکن نئے آرمی چیف کے تقرر اور ان کے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد حکومت کے لئے ملک و قوم کے مفاد میں اب لازم ہو چکا ہے کہ وہ اب ملک میں جاری سیاسی ڈراموں کو روکے اس لئے کہ مان لیا پر امن سیاسی احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن ہر آئینی حق کی بھی ایک حد ہوتی ہے کیا پرامن سیاسی احتجاج کسی سکول میں ہو سکتا ہے کیا کسی ہسپتال میں جا کر زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائے جا سکتے ہیں اسی طرح خان صاحب نے مارچ سے جلسے جلسے کھیلنا شروع کیا ہے اور اب نومبر کا مہینہ ختم ہونے کو آ رہا ہے انھوں نے اپنی پوری کوشش کر کے دیکھ لیا ہمیں نہیں معلوم انھیں اس ساری مشق سے کیا حاصل ہوا اور کیا نہیں لیکن ہمیں اور ہر باشعور انسان کو اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس ملک میں مسلسل سیاسی انتشار ہو گا اس ملک کی معیشت کو کبھی استحکام حاصل نہیں ہو سکتا اور لگتا ایسے ہیں کہ خان صاحب یہی چاہتے ہیں تاکہ وہ موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو اپنی کامیابی کی سیڑھی کے طور پر استعمال کریں اور اس میں انھیں کسی بات کی کوئی فکر نہیں ہو گی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی میڈیا میں دی جا رہی ہیں جس کی وزیر خزانہ کو بار بار تردید کرنا پڑ رہی ہے لہٰذا حکومت سے گذارش ہے پاکستان کی معیشت ویسے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اس لئے اب احتجاج کے نام پر ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور اسی میں ملک و قوم اور ہم سب کی بہتری ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.