عمران خان نے آج معافی مانگ کر عظمت کا مظاہرہ کیا، قابل ستائش بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں جج زیبا صاحبہ کے گھر جاکر ان سے روبرو ہو کر معافی مانگوں گا بلکہ انہیں یہ بھی بتاؤں گا کہ میرا مقصد ان کی توہین کرنا نہیں تھا۔ عدالت میں جج صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں اور اس کے ساتھ جی آپ جو کہیں وہ کرنے کو تیار ہوں۔ عمران خان کی یہ عاجزی دیکھ کر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ صاحب نے بیان حلفی جمع کرانے کا کہا اور کیس کی سماعت کو تین اکتوبر تک ملتوی کر دیا۔ شام تک تحریری جواب بھی خان صاحب کی لیگل ٹیم میں جمع کروا دیا جس پر عدالت کا تفصیلی فیصلہ بھی اسی دن آگیا جس میں عدالت نے عمران خان کے جواب کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سماعت کو مقررہ تاریخ پر کارروائی آگے بڑھانے کا اچھا کیا فیصلہ کیا۔
عمران خان نے معافی مانگ کر سمجھداری کا مظاہرہ تو کر لیا لیکن بہت دیر کردی آپ مشیروں کی رائے کو اہمیت دیتے رہے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان تو شروع ہی سے اس بات کے قائل تھے کہ بغیر معافی اس کیس سے بریت نہیں ملے گی۔ مگر فواد چودھری اور حامد خان کے درمیان ہونے والے تضاد کی وجہ سے شاید فواد چوہدری مخلصانہ رائے دینے سے قاصر تھے جس کا خمیازہ پہلی دو پیشیوں میں عمران خان کو بھگتنا پڑا۔ عمران خان سے جب کارروائی کا آغاز ہوا تھا تو جج صاحب نے یہ باور کروا دیا تھا کہ عمران خان عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اس لیے کہیں نہ کہیں اس بات کا فائدہ ان کو ملا۔ فائدہ اس صورت میں کہ ان پر سختی نہیں کی گئی بلکہ ان کی مرضی کے مطابق اس کیس میں ان سے انٹیروگیشن کی گئی۔
ہمیں یاد ہوگا 2008 میں ہونے والے انتخابات میں عمران خان ہی تھے جنہوں نے عدلیہ کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور آج بھی وہی عمران خان ہے جسے توہین عدالت کے کیس میں عدالت کے سامنے آنا پڑا۔ خیر اس بات کی وضاحت فیصل جاوید نے کر دی کہ عمران خان عدلیہ کی عزت کرتے ہیں اور جب وہ بذات خود عدالت سے باہر آئے تو صحافیوں سے بات چیت میں بھی کہا کہ میری جنگ مافیا کے خلاف ہے نہ کہ عدلیہ کے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کے معاملے پر عمران خان کو یہ مشورہ دیاکہ آپ اگر حقیقی طور میں ملک کے لیے کوئی فریضہ سر انجام دینا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ عوام نے عمران خان کو اگر منتخب کیا تو آپ کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں کردار ادا کریں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تائید کرتے فیصل جاوید خان بھی نظر آئے جس سے یہ امید ظاہر ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے پاکستان تحریک انصاف واپس قومی اسمبلی میں لوٹ آئے۔
صورتحال کس جانب جا رہی ہے یہ تو واضح ہے کیونکہ عمران خان نے تحریک کا اعلان کردیا ہے جس کا آغاز ہفتے کے روز سے ہونے جا رہے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے جمعرات کو انہوں نے عدالت سے نکلتے ہوئے کہا تھا کہ میری جنگ مافیا کے خلاف ہے۔ لیکن میرا مشورہ خان صاحب کو یہی ہے کہ ریڈ زون کی جانب مارچ کرنا کوئی زیرک اقدام نہیں ہے۔ آپ نے 2014 میں بھی 126 دن کا دھرنا دے کر دیکھ لیا، آپ اپنے مطالبات منوانے میں ناکام رہے۔ ملک کا پہیہ جام کرنے سے بہتر ہے کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جمہوری طریقے سے نکالیں ورنہ آئین کے تحت وفاق پرچڑھائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی اجازت موجود ہے اور وزیر داخلہ بھی پرعزم ہیں کہ اب کی بار 25 مئی کو بھی بھول جائیں گے اور ایسی کارروائی کریں گے مارچ کرنے والے لوگ یاد رکھیں گے۔
حکومتیں بنتی ہیں ٹوٹتی ہے، وزراء آتے ہیں جاتے ہیں، مگر ابھی جو صورتحال ملک میں پیدا ہے اس سے نقصان جمہوریت کی بقا کا ہے۔ ہم سیلاب زدگان کو فراموش نہیں کر سکتے اور سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر عدالت میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے بھی یہ ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آپ کا تقاضا انتخابات ہے بھئی تو ملک اس وقت ارلی الیکشنز کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کروڑوں افراد اس وقت سیلاب سے بے گھر ہو چکے ہیں اور 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی اخراجات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ وقت پولیٹیکل پولرائزیشن سے نکل کر پاکستان کو دوبارہ سے سمیٹنے کا ہے۔ ہمیں ماضی کو نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ جب پاکستان دولخت ہوا تھا تو اس میں نقصان بھی پاکستان کا ہی ہوا تھا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.