”لوگ در لوگ“

107

فرخ سہیل گوئیندی کے بارے میں یہ لکھنا آسان ہوگا کہ وہ کیا نہیں ہیں۔ فرخ سہیل گوئیندی ایک کٹر سیاسی نظریاتی کارکن، دانشور، مصنف، کالم نگار، شاعر، سیاح ، پبلشر اور ایک نظریاتی شخصیت ہیں۔ فرخ سہیل گوئیندی کے کان میں سوشلزم کی اذان بھٹو صاحب نے دی اور وہ اس اذان پر لبیک کہتے ہوئے اس دور میں بھی کہ جب سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے بطن سے پھوٹنے والی ”جمہوریت“کے سامنے بہت سے دانشور سرنگوں ہوکر رفعتیں پا چکے ہیں اور انہیں این جی اوز اور سیاسی جماعتوں میں پناہ ڈھونڈنا پڑی، فرخ سہیل گوئیندی اپنے سیاسی اور معاشی نظریات کا علم استقامت کے ساتھ اٹھائے ہوئے ہیںجو ایک قابل تقلید عمل ہے۔ گوئیندی صاحب اپنے نظریات کا پرچار اپنے کالموں، سوشل میڈیا پر لگائی گئی پوسٹوں اور یو ٹیوب پر اپنے چینل پر باقاعدگی سے کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں گوئیندی اپنے بے لاگ اور حقیقت پسندانہ تبصروں میں بتاتے ہیں کہ جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر اس ریاست اور اس کے عوام کے حقوق کس طرح پامال کیے جارہے ۔
گوئیندی صاحب کی ایک خوبی ان کی تصنع، بناوٹ اور لالچ سے پاک دوستی ہے۔ نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرون ملک بھی ان کے دوستوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہاں بھی وہ اپنے سیاسی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلے ہیں ۔ جس کا حوالہ گوئیندی نے مرحوم بلند ایجیوت پر لکھے خاکے میں بھی دیا کہ جب مشہور اطالوی صحافی اوریانا فلاسی نے انٹرویو کے دوران بھٹو صاحب سے سوال کیا کہ آپ نے مغرب کے لاتعداد سفر کیے تو جواب میں بھٹو صاحب نے کہا کہ ” ہاں میرے یہ سفر مغرب کے نائٹ کلبوں اور رات کی رنگینیوں کی نذر نہیں ہوئے، ان سفروں میں، میں نے مغرب کے رہنماﺅں اور دانشوروں سے دوستیاں قائم کیں، برٹینڈ رسل جیسے مفکر نے بھی مجھے اپنے حلقہ احباب میں شامل کیا“۔
کچھ عرصہ قبل سیاسی، علمی اور فنی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ”لوگ در لوگ“ شائع ہوئی۔ کتاب کا پیش لفظ نامور دانشور آئی اے رحمان نے لکھا ہے۔کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نازاں سانچی، بلند ایجیوت، حسن بن طلال، مولانا عبید اللہ سندھی، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، راﺅ رشید، ممتاز کاہلوں، حاجی مستان مرزا، سوبھا سنگھ، خشنوت سنگھ، کلدیپ نائر، اندر کمار گجرال، منو بھائی، پروفیسر وارث میر، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر انور سجاد، یونس ادیب، محمود مرزا اور مدیحہ گوہر کے بارے میںتاثرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہد حسین کی مشرف دور میں رہائی، ایک سکھ خاتون دیپ کور اور ان کی بیٹی مرینا وھیلز اور برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن کی اہلیہ کی سرگودھا میں اپنے آباءکی نشانیوں کی تلاش کی داستانیں بھی ہیں۔
کتاب میںمجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ گوئیندی کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے 1998ءمیں اقوام متحدہ کے لیڈر شپ پروگرام کے تحت ہونے والی کانفرنس میں اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز کے سامنے کی ۔ جس کی نوبت اس وقت آئی جب شمعون نے اپنے خطبے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد” جمہوریت کے سنہری دور“، اسرائیل فلسطین تنازع اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی تہذیب و ثقافت اور فلسطینیوں کی آباد کاری کے لیے اپنی ”قربانیوں“ کا ذکر کیا۔ اس کے جواب میں فرخ سہیل گوئیندی نے سوال کی شکل میں جو خطاب کیا وہ پڑھنے کے لائق ہے کاش اس قسم کی جرات کا مظاہرہ ہمارے ماضی اور حال کے اربابِ اقتدار نے بھی کیا ہوتا۔ فرخ سہیل گوئیندی جن کی شہرت مذکورہ کانفرنس کے دوران فلسطینی کاز کے ایک حمایتی طور پر ہوچکی تھی ، بے خوف و خطر ہو کر شمعون کو آڑے ہاتھوں لیا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ مولانا سندھی انھیں ترکی کی تلاش کے دوران میں ملے۔ گوئیندی بتاتے ہیں کہ سوویت یونین نے ایک غیر کمیونسٹ تحریک سے معاہدہ کیا اس کا سہرا بھی مولانا سندھی کے سر جاتا ہے۔ جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ کابل میں جلاوطنی کے دوران انہوں نے روس سے آزادی ہند کی جدوجہد کی حمایت کے لیے روس کا سفر اختیار کیا۔ جہاں ان کی ملاقات سوویت یونین کے وزیر خارجہ قارحہ چیچران سے ہوئی جو تین ادوار پر مشتمل تھی۔ ان ملاقاتوں کے دوران چیچران نے آزادی ہند کا معاہدہ کیا۔ یہاں مولانا نے چیچران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی پیش کش کو مسترد کردیا اور صرف مالی اور سیاسی تعاون کی بات کی جو مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا ایک ثبوت ہے۔ امید ہے کہ گوئیندی صاحب اپنی آنیوالے کسی کتاب میں نامور دانشور الطاف جاوید صاحب مرحوم کا ذکر بھی کریں گے جنھیں مولانا عبیداللہ سندھی سے براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع ملا تھا۔ الطاف جاوید صاحب تقریبا 17 سال قبل لاہور میں وفات پا گئے تھے۔
کتاب میں محترم محمود مرزا صاحب اور جناب حنیف رامے صاحب کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ حنیف رامے جنھیں گوئیندی ”یارم“ لکھتے ہیں۔ راقم کے والدِ مرحوم محمد اختر مسلم کو بھی حنیف رامے صاحب سے قریبی انس تھا کہ رامے صاحب کے ہفتہ وار رسالے نصرت میں وہ بھی لکھتے رہے تھے۔گوئیندی صاحب نے علامہ غلام احمد پرویز صاحب اور رامے صاحب کے حوالے سے قرآن فہمی کے حوالے سے جو واقعہ درج کیا ہے وہ راقم کو بھی براہ راست رامے صاحب سے سننے کاموقع ملا تھا۔ محمود مرزا صاحب مرحوم اور گوئیندی میں بھی گہری قربت رہی ہے۔ محمود مرزا صاحب بلاشبہ وہ دانشور تھے جنھوں نے علمی اور سیاسی تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچا اور اس کا کھل کر اظہار کیا۔ محمود مرزا صاحب ایسے دانشور تھے جو حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ جیسا کہ گوئیندی صاحب نے لکھا ہے کہ محمود مرزا صاحب اکثر ایک سوال اٹھاتے اور دوسروں کی رائے تحمل اور غور سے سنتے اور پھر اپنا مدلل نقطہ نظر پیش کرتے۔
گوئیندی صاحب کا جو حلقہ احباب ہے اس لحاظ سے ان کی کتاب ”لوگ در لوگ“ شاید دو تین فیصد شخصیات کا ا حاطہ بھی نہ کرپائی ہو۔ لیکن جو کچھ اس کتاب میں ہے وہ خوب ہے۔

تبصرے بند ہیں.