برادرم شعیب صدیقی کیخلاف پاکستان تحریک انصاف نے 2004ء میں صوبائی ضمنی الیکشن لاہورسے لڑا ۔ میں اُس وقت پی ٹی آئی لاہورکا جنرل سیکرٹری تھا اورسابق گورنر پنجاب عمر سرفرازچیمہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار تھے یہ وہ زمانہ ہے جب شیح رشید ہمارے چیئرمین کوتانگے کی سواریاں پوری نہ ہونے کے طعنہ دیتے تھے اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی شیخ رشید کوچپڑاسی رکھنے کیلئے تیار نہ تھے لیکن سیاست میں مفادات بدلیں تو دوست دشمن بھی بدل جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ غیرت مند لوگوں کیلئے کرپٹ ہمیشہ کرپٹ ہی رہتا ہے ٗ ڈاکو کبھی قابل ِتعظیم نہیں ہوتا مگر شخصی سیاسی جماعتوں میں فرد واحد لیڈرنہیں مرشد سمجھا جاتا ہے اوربدقسمتی سے یہ المیہ صرف پاکستان کا ہی نہیں ساوتھ ایشین ممالک کا یہ المیہ ہے کہ یہاں نظریاتی نہیں شخصی سیاسی جماعتیں ہی فروغ پاتی ہیں ۔شاید اس خطے کا مجموعی مزاج ہی بت پرستانہ ہے ۔بہرحال مجھے یاد ہے کہ یہ الیکشن جولائی کے پہلے ہفتے میں ہوا تھا ٗ بلا کی گرمی تھی لیکن سیاست پروفیشن نہیں پیشن کا نام ہے۔ دن رات ایک کیا لیکن شعیب صدیقی وہ الیکشن بڑے مارجن سے جیت گئے ۔ میں اُس الیکشن سے پہلے اور2013 ء کے درمیان شعیب صدیقی سے کبھی نہیں ملا تھا لیکن 2012ء میں جب عبد العلیم خان اورشعیب صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کر لی تو میرا رابطہ برادرم عبد العلیم خان اوربرادرم شعیب صدیقی سے بہت زیادہ ہو گیا کیونکہ ہم سب پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں لاہور سے تنظیمی عہدوں پر منتخب ہوئے تھے اور ہم دن رات ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کے خواب کی تعبیرمیں جُت گئے ۔ان گنت پروگرامز ٗ لاتعداد جلسے ٗجلوس ٗ کارنر میٹنگز ٗ پارٹی میٹنگز ٗ سینٹرل پنجاب کے دورے ٗ نہ جانے کیا کیا کچھ جو لکھنے کیلئے بھی ایک طویل تحریر درکار ہے لیکن اگرمیں گئے
برسوں کا آج صرف طائرانہ جائزہ ہی لوں تو شعیب صدیقی ایک ایسا نام ہے جو مجھے ہر جگہ دکھائی اورسنائی دیا ۔ میں ہی کیا وہ چیئرمین تحریک انصاف کا بھی ’’جانِ عزیز ‘‘ تھا بلکہ شعیب صدیقی کے تحریک انصاف جوائن کرنے کے بعد بہت سے بانی اراکین پی ٹی آئی بھی عمران خان کی نظر میں بے توقیر ہوتے چلے گئے ۔ مینار پاکستان کے جلسے میں عمران خان نے خود شعیب صدیقی اورعبد العلیم خان کی تعریفوں کے پل باندھے ۔2015ء میں عبد العلیم خان نے سردار ایاز کے خلاف جس طرح الیکشن لڑا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کیونکہ اُسی کے نتیجہ میں تحریک انصاف سینٹرل پنجاب سے نکل پوری دنیا میں پھیل گئی ۔اُس الیکشن کا انچارج بھی شعیب صدیقی ہی تھاجو آج گزشتہ رات حملے میں بچ گیا ۔ سیاست کی دوستیاں اور دشمنیاں کبھی مستقل نہیں ہوتیں اوریہ بات پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے اپنے عمل سے ثابت کی ہے مگر عمران خان کہتا ہے کہ جو دوسری پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئیں وہ مومن اور جو اُسے چھوڑ کرچلے جائیں وہ بدترین مشرک ہیں ۔نوجوانوں کے اذہان کو آلودہ کیا جا رہا ہے جس سے سیاسی ورکر کے بجائے سیاسی خوارج پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں ۔ انتہا پسندی مسئلہ تو ہو سکتی ہے لیکن کسی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ شعیب صدیقی پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ میں جا چکے ہیں اوراِس جرم کی پاداش میں اُن پرحملہ کرنا یاحملے کی کوشش کرنا انتہائی غیر سیاسی ٗ غیر سماجی اورغیر اخلاقی حرکت ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ ملزمان کون ہیں لیکن ایسے بہت سے واقعات ضمنی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملے جب الیکشن کمپین کے دوران نون لیگی امیدواروں کو گالی گلوچ اور نازیبا رویے کا سامنا کرنا پڑا ۔ میں نے ضیا ع الحق سے لے کر آجتک کے تمام حکمران بھگتائے ہیں اِن میں صرف محترمہ بے نظیر صاحبہ کے ساتھ کام کیا لیکن جب وہ اقتدار میں آئیں تو ہم نے انہیں خیرباد کہہ دیا اُس کے بعد عمران خان کے ساتھ کام کیا اور’’جب وہ اقتدار میں آیا تو اُس نے ہمیں خیرباد کہہ دیا‘‘ سو میں نے اپنی زندگی میں وہ اقتدار بھی نہیں دیکھا جس کیلئے میں نے زندگی کے 26 سال تحریک انصاف کو دیئے لیکن مجھے اس کا عمران خان سے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ میں حکمرانوں کا مزاج آشنا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ عمران خان کو اپنے سے زیادہ دیانتدار لوگ بھی پسند نہیں لیکن یہاں سوال عمران خان کی پسند یا نا پسند کا نہیں بلکہ ملکی مفاد کا ہے ۔ کیا ہم ان حالات میں کسی گرم سیاست کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟ کیا ہمارے پیش نظر صرف اقتدار کاحصول رہ گیا ہے ؟ کیا آنے والی نسلیں اوراُن کی تربیت ہمارا مقصد نہیں ؟ کیا بڑھتی ہوئی غربت ٗ بیروزگاری ٗسیاسی عدم استحکام میں مزید انتشار کی سیاست اس ملک کو ایک بدترین انارکی کی طرف نہیں لے جا رہی ؟کیا ہم کسی نئے المیے کو جنم دینے کی بھرپور کوشش نہیں کر رہے جو صرف ابھی تک اللہ کی طرف سے روکا ہوا ہے؟
غصہ ٗ عدم ِبراشت ٗگالی گلوچ اورڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافہ پاکستان کو جس سمت لیجارہا ہے اس کا تعین کوئی کارِ محال نہیں لیکن ہمارے رہبروںکو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ سیاست کا یہ بے رحم کھیل اگر سیاسی جماعتوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کسی ادارے کے بس میں بھی انہیں کنٹرول کرنا نہیں ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ کے معلوم اورنامعلوم قاتلوں نے پاکستان کے بیٹے اوربیٹیوں کی ایک طویل فہرست بنا کر عوام کو دے رکھی ہے جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں کسی ہائی پروفائل کیس کے کسی ملزم کو آج تک سزا نہیں دی گئی ۔ ہمارے معزز جج صاحبان اپنے غلط فیصلوں کے نتائج کو عدالتی قتل کہہ کر جان چھڑا لیا کرتے تھے لیکن اب توبات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے ۔آپ 2015 ء میں غلط فیصلہ دے کر 2022 ء میں پرانے فیصلے کو درست کرسکتے ہیں لیکن لطیفہ یہ ہے کہ غلط اوردرست کیے گئے فیصلے میں نقصان ایک ہی پارٹی کا ہوا ۔غلط فیصلہ درست کیا جائے تو غلط فیصلے کے نتیجہ میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کس فیصلے نے کرنا ہوتا ہے اس پرہر فیصلہ خاموش ہے اورخاموشی زندگی نہیں موت کی علامت ہے جو فرد کیلئے ضروری اور ریاست کیلئے بیک وقت کروڑوں انسانوں کی موت ہوتی ہے ۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.