ڈی۔ آئی۔جی آپریشنز کا بہترین اقدام لیکن…

89

میرا جب بھی سفر کے دوران لاہور کی نہر، ریلوے اسٹیشن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جانا ہوتا ہے تو یہاں فٹ پاتھوں پر قبضہ جمائے نشئیوں کو دیکھ کر دل رنجیدہ ہوتا ہے  کیسے کیسے نوجوان اور خوبصورت نوجوان اس سر طان کا شکار ہو کر اپنی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں ۔ہمارے ایک مہربان ان کی حالت کو دیکھ کر انتہائی دکھ بھرے جذبات میں آکر یہ بات کہتے ہیں کہ آخر ان کی پیدائش پر بھی تو ان کے ماں باپ نے مٹھائی تقسیم کی ہو گی ۔ لیکن حالات کی ستم ظریفیوں اور نہ معلوم کن وجوہات کی وجہ سے یہ لوگ تیزی سے موت کی وادی کے مسافر بنتے جا رہے ہیں ۔لاہور پولیس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال اب تک 102نشئیوں کی موت واقع ہو چکی ہے ۔
یہ نہ صرف اپنے لئے نقصان کا با عث بن رہے ہیں بلکہ معاشرے کے لئے بھی تباہی کا موجب بنتے جا رہے ہیں ۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق شہر میں 80فیصد سے زائد جرائم میں منشیات استعمال کر نے والے افراد ملوث ہیں ۔ اب آپ اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیسے معاشرے میں جرائم میں اضافے کے پیچھے یہ لوگ متحرک ہیں ۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری اور اس کے لئے استعمال ہو نے والے شوٹرز بھی صرف کچھ وقت کے نشے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائم، ہاؤس رابری کی وارداتیں کرنے والے 80 فیصد افراد کو پہلے کسی نہ کسی نشے کی لت لگی اور اسی نشے کیلیے پیسوں کا حصول ان کو جرائم کی دنیا میں لے آیا۔بھاٹی گیٹ کے سیریل کلر ججی مالشیے کے ہاتھوں 5 افراد کے قتل کی واردات ہو یا گلشن راوی کے حافظ حمدان کے قتل کا
واقعہ، نوجوان عبداللہ کے قاتل دوست  ہوں یا نواں کوٹ میں بھائی بھابھی کا قاتل بلال ہو، تمام واقعات کی کڑیاں نشے سے جاملتی ہیں جن میں سرفہرست آئس ہے۔اسی نشے نے بیٹے کے ہاتھوں  ماں کا قتل بھی کرایا۔ لیاقت آباد میں آئس کا نشہ کرنے والے ماں بیٹے میں جھگڑا ہوا اور احمد نے فائرنگ کرکے ماں کی جان لے لی۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نشے کے بیوپاریوں میں بھی ہمارے معاشرے کے ہی لوگ ہیں ۔ جو سر عام شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر اس زہر قاتل کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں ۔ میں نے ایک سال پہلے اس پر باقاعدہ تحقیقاتی رپورٹ بنائی تھی کی کس طرح اور کیسے یہ مافیا، عام اور معصوم شہریوں کو زندگی کو عذاب بنا رہے ہیں ۔ ان دنوں بلکہ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا کہ خواتین اسکول بیگز کی آڑ میں نشہ فروخت کرتی تھیں ۔ جہاں اساتذہ ، طالب علم اور کھلاڑی سب ہی خریدار تھے ۔ مجھے آج بھی نویں جماعت کی اس طالبہ کے الفاط یاد ہیں کہ جو نشہ خریدنے آئی تھی کہ اس کی دوست نے اسے نشے پر لگایا، اس کی والدہ بھی نشہ کرتی تھیں ، پہلے اس نے مفت میں نشہ کروایا ، پھر پیسے لانے کا کہا ، اس نے بڑی بے بسی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ نشہ چھوڑنا چاہتی ہوں لیکن نہیں چھوڑپاتی ، زندگی بر باد ہو چکی ہے۔
بھلا ہو لاہور پولیس کے ڈی۔آئی۔جی آپریشنز کیپٹین (ر) سہیل چوہدری کا جنہوں نے نشے کی لت میں مبتلا بے آسرا و بے یارو مدد گار لوگوں کی حالت زار بارے سوچا اور حکومت وقت کو ان کی حالت بہتر بنا نے اور انہیں معاشرے کا کار آمد فرد بنا نے کے لئے تجاویز پیش کی ہیں جو نہایت ہی عمدہ تجاویز ہیں ۔ اسکی مفصل رپورٹ کے مطابق لاہور پولیس نے سفار ش کی ہے کہ شہر لاہور میں بنائی جانے والی 6پناہ گاہوں میں 600بیڈز ہیں جنہیں نشے میں مبتلا لوگوںکے لئے بطور Rehablilation سینٹرز میں تبدیل کر دیا جائے جبکہ مینٹل ہسپتال مین بھی 200بیڈز ان لوگوں کے لئے مختص کئے جائیں اور باقی سرکاری ہسپتالوں میں بھی کم از کم دووارڈز ان لوگوںکے لئے رکھی جائیں ۔ بلا شبہ یہ ایسی تجاویز ہیں جن پر فی الفور ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پولیس کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی معاملے کا بہترین حل دیا گیا ہوا ، نہیں تو وقتی طور پر سرخی میک اپ کر کے معاملے کو دبانے کی روایت ہی برقرار رہی ہے ۔ لیکن یہاں یہ امر بھی مد نظر رہنا چاہئے کہ پنجاب پولیس کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق رواں سال 13028منشیات کے سمگلر اور ڈیلرز گرفتار کئے گئے ۔ کیا ان گرفتار شدہ لوگوں کے کیسز کی پیروی بھی کی گئی یا پھر اگلی ہی پیشی پر ضمانت کرواکے پھر سے یہی لوگ اسی دھندے میں ملوث ہو گئے؟ کیا کھلے عام شہر لاہور میں اس زہر کی فروخت کے پیچھے پولیس اہلکار ملوث نہیں؟ کیا ان پولیس اہلکاروں اور تھانوں میں تعینات افسروں کے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی کی گئی ؟ اور اگر نہیں کی گئی تو کیوں نہیں کی گئی؟ ان سوالات کے جوابات کے بغیر ان منشیات فروشوں کے خلاف کوئی بھی کاروائی اور ایکشن بے سود رہے گا ۔ بلا شبہ ڈی۔آئی۔جی آپریشنز کا اس زہر قاتل کے نشے میں مبتلا لوگوں کی بہتری کے لئے کئے گئے اقدامات قابل تحسین ہیں لیکن اس کی سر عام فروخت میں ملوث افراد اور ان کی پشت پناہی کر نے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کوئی سخت ایکشن ہو گا ؟؟؟سہیل چوہدری کا شمار قابل اور نڈر افسران میں ہوتا ہے اور ان کا ماضی گواہ ہے کہ کسی بھی کام کر نے کا وہ سوچ لیں تو وہ ہو کر رہتا ہے ۔ اگر صرف اس مافیاکو وہ کنٹرول کر نے میں کامیاب ٹھہرے تو مجھے یقین ہے کہ ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.