دانش خان
کراچی کا صرافہ بازار کسی زمانے میں ’’کامل گلی‘‘ میں ہوا کرتاتھا . اسی صرافہ بازار میں پاکستان کے نامور بزنس مین سیٹھ عابد کے والد کی دکان بھی ہوا کرتی تھی ۔سیٹھ عابد جن کا اصل نام شیخ عابد حسین تھا کہ والد کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ صرافہ بازار کراچی میں ایک ہاتھ میں قینچی لے کر گھوما کرتے تھے اور جہاں کسی شخص کے چہرے پر ڈاڑھی اور مونچھیں دیکھتے وہیں قینچی سے اس کی مونچھیں تراش دیتے کیونکہ یہ سنت رسول ؐ کے عین مطابق تھا۔ اللہ نے انھیں چھے بیٹے عطا کیے تھے۔جن میں سے آج کتنے زندہ ہیں، اس کا علم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور اندازہ ہے کہ ان چھے بیٹوں میں سے ہر ایک ’’ارب پتی‘‘ تو ضرور ہے۔ ایک اور بات جو ان بھائیوں میں مشترک تھی وہ یہ ہے کہ سب کے سب حاجی تھے۔ ان بھائیوں میں شیخ عابد حسین کے پاس سب سے زیادہ دولت تھی۔ شیخ عابد حسین اپنے سارے بھائیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار، ذہین اور بات کی تہ تک فوراً پہنچنے والے تھے۔ ان کا دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا۔ ان کی تصویر ان کی زندگی میں کبھی کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی۔ پبلک ریلیشنگ کا انھیں سرے سے کوئی شوق نہیں تھا، اللہ نے انھیں ایک بیٹی یعنی نصرت شاہین اور تین بیٹوں سے نوازا ہے۔ ان کے دونوں چھوٹے بیٹے گونگے بہرے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا میں کسی بورڈنگ ہاؤس میں رہتے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے شادی شدہ بیٹے ایاز محمود کو لاہور میں کچھ عرصہ قبل قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے خلاف سیٹھ عابد نے حیرت ناک طور پر کوئی قانونی اقدام نہیں کیا۔ ان کا یہ مرحوم بیٹا حافظ قرآن تھا اور خالق دینا ہال کراچی میں نماز تراویح پڑھایا کرتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی تو یہ سیٹھ عابد ہی تھے جنھوں نے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ پاکستان میں سمگل کیا ۔
1950 کی بات ہے کہ جب ان کے والد کی سونے کی دکان تھی وہاں پر کچھ ایسے ماہی گیر جو دبئی سے کراچی سونے کی سمگلنگ کرتے تھے، ان سے ملاقات کے بعد سیٹھ عابد نے سونے کی سمگلنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔50 کی دہائی کے اختتام تک انھوں نے ایک ماہی گیر قاسم بھٹی کے ساتھ مل کر پاکستان میں سونے کی سمگلنگ میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔
اپریل 1958 میں لاہور جانے والے سیٹھ عابد کو کراچی ایئرپورٹ پر روکا گیا تو ان کے پاس سے 3100 تولہ سونا برآمد ہوا۔ کراچی کسٹم حکام نے جب پریس ہینڈ آؤٹ میں بتایا کہ انھوں نے 2000 تولے سونا ضبط کیا ہے تو پولیس کی تحویل میں موجودسیٹھ عابد نے ان کی تصحیح کی کہ یہ 2000 نہیں 3100 تولے سونا تھا۔سیٹھ عابد جلد ہی جیل سے رہا بھی ہو گئے اور صرف پانچ ماہ بعد ہی قصور کے قریب واقع ایک سرحدی گاؤں میں نمودار ہوئے جہاں انھیں امرتسر پولیس سے بچنے کے لیے سونے کی 45 اینٹیں چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔
چھ سال بعد سیٹھ عابد پھر اسوقت وہ بارہ منظرِ عام پر آئے، جب وہ چاندنی چوک میں موتی بازار کے ایک تاجر کے ساتھ سونے کا ایک معاہدہ کر رہے تھے۔ کہ دلی پولیس نے ریڈ کر دیا، تاہم یہ تو وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کا ایک ساتھی پکڑا گیا اور پولیس نے اس سے سونے کی45 اینٹیں بھی برآمد کر لیں۔
سیٹھ عابد کوپاکستان میں ’گولڈ بادشاہ‘ کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا اور ان کا شمار ان امیر ترین افراد میں بھی کیا جاتا تھا جن کی دولت کا انحصار سونے کی سمگلنگ پر تھا۔سمگلنگ کے کاروبار میں سونے کا بادشاہ بننے کے لیے کسی کو بھی سرحد کے آر پار اپنے نیٹ ورکس قائم کرنا ہوتے ہیں اور ریاستی اشرافیہ اور سرکاری افسران کے ساتھ تعلقات بھی قائم کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے میں اپنا مقام قائم کرنے کے لیے اخلاقی بنیادوں پر خیر سگالی کا ایک وسیع نطام بھی قائم کرنا پڑتا ہے۔سیٹھ عابد کا عروج پاکستان اور انڈیا کی سرحد کی تشکیل کے ساتھ ہی سامنے آیا۔ان کی طاقت کراچی کی بندرگاہ، پنجاب کی سرحد، حکومتی انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں تو موجود تھی ہی لیکن وہ سرحد کی دوسری جانب اور اس سے بھی آگے بہت سے کام سر انجام دے سکتے تھے۔لندن، دلی اور دبئی میں عبوری رابطوں کے ساتھ سیٹھ عابد نے 1950 سے 1980 کے دوران انڈیا کی سونے کی سمگلنگ پر قائم اجارہ داری کو ختم کر دیا۔
بتدائی طور پر یہ نظام قریبی رشتہ داروں کے نیٹ ورک پر مشتمل تھا۔ ان کے بھائی حاجی اشرف جو بہت فراوانی سے عربی زبان بول سکتے تھے، دبئی میں مقیم تھے، جبکہ ان کے داماد غلام سرور اکثر و بیشتر دلی جاتے تھے اور سونے کے سمگلر ہربنس لال سے ملاقات کرتے تھے۔برٹش ایئرویز میں کام کرنے والے چارلس میلونی کو سیٹھ عابد کا برطانیہ میں ’سہولت کار‘ فرض کیا گیا۔ سیٹھ عابد ہر برس حج پر بھی جاتے اور اس کے ساتھ ہی عرب شیخ آپریٹرز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے۔جب ان کا سمگلنگ کا کاروبار مزید وسیع ہوا تو انھوں نے پنجاب کے سرحدی علاقے کے دیہاتوں میں رہنے والے کچھ ایجنٹس کو سونے کی سمگلنگ کی فرنچائز دی جن میں نمایاں طور پر گھرکی دیال اور اعوان کمیونٹی کے لوگ شامل تھے۔
سیٹھ عابد کے درجنوں حریف تھے لیکن کسی کے پاس بھی ان جیسی صلاحیتیں، روابط اور سرمایہ نہیں تھا۔ ان کے بہت سے حریفوں کے برعکس سیٹھ پر ان کے طویل کیریئر کے دوران کبھی بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی حالانکہ ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کی گئیں۔
1970 کی دہائی میں سیٹھ عابد کی سمگلنگ کی وسیع کارروائیوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران کچھ رکاوٹوں کا سامنا بھی رہا اور ان کے کچھ اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا۔
1974 میں کچھ ایسا ہوا جو کسی نے بھی سوچا نہ تھا۔ لاہور شہر میں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر پولیس کے ایک بڑے چھاپے میں پاکستانی کرنسی جس کی مالیت تقریباً 12.5 ملین تھی برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس لاکھ مالیت کا سونا، 20 لاکھ مالیت کی سوئس گھڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں۔ اس چھاپے میں لاہور پولیس نے تین گاڑیاں اور درجن بھر گھوڑوں کو بھی اپنی تحویل میں لیا جنھیں غیر قانونی سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اخبارات نے اس خبر کی سرخی کچھ ایسے لگائی: ’پاکستان کی تاریخ کا سمگلنگ کا سب سے بڑا کیس‘ اور ’پاکستان کے گولڈ کنگ‘، سیٹھ عابد پر عالمی سطح پر سمگلنگ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔وزیر اعظم بھٹو نے ’سیٹھ عابد انٹرنیشنل سمگلنگ کیس‘ کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل نے درجنوں گواہان کے بیان ریکارڈ کیے جبکہ متعدد وارننگ کے باوجود سیٹھ عابد ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہوئے۔سیٹھ کی گرفتاری کا معاملہ نہ صرف پاکستانیوں کی روز مرہ کی گفتگو کا حصہ بن گیا بلکہ بھٹو حکومت کے لیے ریاستی رٹ کا بھی ایک ٹیسٹ کیس بن گیا۔پاکستان میں ’انتہائی مطلوب شخص‘ کی تلاش کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا گیا، جن میں پاکستانی فوج، پولیس، رینجر اور نیول گارڈ کی چھاپہ مار ٹیموں کو تشکیل دیا گیا۔
کراچی میں بھی سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا جہاں سے بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی اور سونے کی اینٹیں برآمد کی گئیں۔ سن 1977 میں جب کراچی کوسٹل گارڈر کو یہ اطلاع ملی کہ کہ سیٹھ عابد نارتھ ناظم آباد میں اپنی ’گرل فرینڈ‘ کو ملنے آ رہے ہیں، تو وہاں بھی چھاپہ مارا گیا لیکن اس سے پہلے ہی سیٹھ عابد وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔
تاہم ستمبر 1977 میں سیٹھ عابد نے اپنی مرضی سے ضیا کی فوجی حکومت کے سامنے ’رضاکارانہ طور پر‘ ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ضبط اثاثوں کی واپسی کے لیے بات چیت کی۔
بہرے اور گونگے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے حمزہ فاؤنڈیشن جیسے انسان دوست ادارے قائم کرنے کے علاوہ سیٹھ عابد نے فلاحی اداروں کو مالی اعانت فراہم کی جس میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر ہسپتال (جے پی ایم سی)،عباسی شہید ہسپتال کا برن وارڈاورلاہور کا شوکت خانم کینسر ہسپتال بھی شامل ہے۔
اپنی غیر قانونی تجارت کے کرئیر کے دوران ان کے بہت سے کردار تھے: سمگلر، سونے کا تاجر، سٹاک مارکیٹ ایکسچینجر، انسان دوست اور سب سے بڑھ کر رئیل سٹیٹ کا ایک بہت بڑا نام۔1990 کی دہائی تک، وہ لاہور کے مختلف مقامات پر وسیع پراپرٹی رکھنے کی وجہ سے شہر کے سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے پراپرٹی ڈویلپر بن کر ابھرے۔وہ کراچی میں بھی کئی جائیدادوں کے مالک تھے اور پاناما لیک میں نام آنے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثے برٹش ورجن آئی لینڈ میں منتقل کر دیے تھے۔
اگرچہ سیٹھ نے ساری زندگی تشہیر سے گریز کیا لیکن پھر بھی انھیں شہرت ملی۔ ان کا نام قومی سطح پر اس وقت مشہور ہوا جب انھوں نے ایک ٹی وی شو میں نیلامی کے دوران کرکٹر جاوید میانداد کا شارجہ اننگز میں استعمال ہونے والا بلا اپنے بیٹے کے لیے پانچ لاکھ میں خریدا۔
سمگلنگ کی دنیا میں ان کے کارناموں کے بارے میں بہت ساری کہانیاں موجود ہیں۔ اخبارات، ان کے بارے میں مشہور واقعات اور سوشل میڈیا سیٹھ عابد کو رومانوی بنا کر پیش کرتا ہے اور ان کے فرار اور گلیمر سے بھری زندگی پر بات کی جاتی ہے۔جب اخبارات نے انھیں ’بدنام زمانہ پاکستانی سونے کے بادشاہ سمگلر‘ کی حیثیت سے پیش کیا تو سیٹھ نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اپنے آپ کو ایسے لوگوں میں سے ایک شخص کے طور پر پیش کیا جس نے سونے کو عام لوگوں کی رسائی تک پہنچایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرے بند ہیں.