کسان پاکستان کو معاشی بدحالی سے نجات دلا سکتا ہے : ماہر ڈاکٹر خالد حمید چیئرمین تارا گروپ

196

اسد محمود

ڈاکٹر خالد حمید عالمی شہرت یافتہ زرعی سائنس دان اور چیئرمین تارا گروپ پاکستان ہیں جن کی قیادت میں 8 سال کے مختصر عرصہ میں تارا گروپ نے ایگرو کیمیکلز کی صنعت ہی نہیں پورے زرعی شعبہ میں صف اول ادارہ کا ممتاز مقام حاصل کیا۔ آپ اپنے ادارہ کی کانفرنسوں و سیمینارز کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے زرعی امور پر مذاکروں اور کانفرنسوں کے ساتھ حکومتی زرعی مشاورتی کونسلوں میں کسان اور زرعی شعبے کی ترقی کیلئے انتہائی موثر وجامع سفارشات دیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ملاقات میں ڈاکٹر خالد حمید نے اس سوال پر کہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبے کی شرح نمو 3.8 فیصد کے ہدف سے گر کر0.85 فیصد تک تنزلی کا شکار ہوئی ہے اس کے کیا اسباب ہیں اور اس صورتحال پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹر خالد حمید نے کہا کہ زرعی شعبے کا ایسا منفی گراف پہلی بار ہدف سے بہت نیچے نہیں آیا ہے۔ تین سال قبل تو اس شعبے کی شرح نمو صفر تک جاپہنچی تھی۔ زرعی شعبے کی تنزلی آج کا رونا نہیں یہ قصہ بہت پرانا ہے جس کا بغور جائزہ لے کر موثر پالیسیوں پر بھرپور عملدرآمد کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے اس قابل تشویش صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ماسوائے دو ایک ادوار کے سبھی حکومتوں نے زرعی شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا کہ 80 فیصد زرعی شعبے کے خام مال پر انحصار کرنے والے صنعتی شعبے کو تو ہر دور میں بیش بہا مراعات اور سہولتوں سے نوازا گیا مگر صنعتوں کے پہیہ کو رواں دواں رکھنے والے زرعی شعبے کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق انتہائی کم ترقیاتی فنڈز دے کربُر ی طرح نظر انداز کیا گیا۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں کسان کو دنیا کے دیگر ممالک کے کسانوں سے مقابلہ و کاروباری مسابقت کے اہل بنانے اور عوام کو سستی زرعی اجناس کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے بھارت سمیت زرعی مداخل پر ہر سال باقاعدگی سے کثیر سبسڈیز دی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جہاں کسان تنظیموں، زرعی ماہرین و تجزیہ نگاروں کے طویل عرصہ سے مطالبہ پر کثیر سبسڈی دینا تو درکنار ہماریـ” دانشمند پالیسی سازوں” نے تو الٹا اقدام کرتے ہوئے کئی زرعی مداخل پر جی ایس ٹی،کئی محصولات اور ود ہولڈنگ ٹیکسز عائد کر کے کسان کا جینا محال کر دیا ہے چنانچہ کوالٹی زرعی مداخل کے کم استعمال کا رجحان ماہرین کے بیان کردہ خدشات کے مطابق زرعی شعبے کی تنزلی اور کسان کی بدحالی کا بڑا سبب بنا۔ کپاس کی پیداوار میں 44 فیصد کمی ہوئی جو کسان کی بربادی کے ساتھ ٹیکسٹائل صنعت کی پیداوار اور برآمدات کو شدید متاثر کرتے ہوئے نہ صرف ملکی معیشت کیلئے ناقابل تلافی دھچکے کا باعث بنی بلکہ صنعتی مزدوروں کی بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا سبب بھی بنی۔ جبکہ دیگر فصلیںبھی جمود کا شکار ہو کر کسان کیلئے خسارے کا موجب بنیں۔ صورتحال یہیں نہیں رکی ایک جانب بیشتر حکومتوں کی ناقص زرعی پالیسیاں ستم رسیدہ کسان کی زبوں حالی کا سبب بنیں تو دوسری جانب ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ کسان کو کئی ادوار میں جعلی اور غیر معیاری بیج بیچنے والے مافیا، ملاوٹ زدہ ناقص کھاد اور کرم کش زہروں کے مقبول برانڈز کے دو نمبر برانڈز بنا کر بیچنے والے مافیا، فصلوں کی کٹائی کے بعد پیداوار کو اونے پونے داموں لوٹنے والے مڈل مین مافیا،اور صنعتی شعبے و ٹریڈرز مافیا کے ہاتھوں لٹنے پر بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا چنانچہ یہی وہ محرکات تھے جو ملک کے کسان کو بدحالی اور زرعی شعبے کو زیرو شرح نمو پر لے آئے ہیں۔

موجودہ حکومت کی جانب سے قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام کے اعلان کے بارے میں سوال پر چیئرمین تارا گروپ ڈاکٹر خالد حمید نے کہا کہ موجودہ حکومت نے زرعی شعبے اور کسان کو ترقی و خوشحالی کیلئے صوبوں کے اشتراک سے 309 ارب روپے کے جس قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔ جس مگر اس منصوبے کے خدوخال میں کپاس کی بدحالی پر قابو پانے کا قطعاً کوئی ذکر نہیں اور تاحال یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ مفلوک الحال کسان سے اس ایمرجنسی پروگرام میں 50 ارب روپے کس طرح اور کیوں حاصل کیے جائیں گے۔ میرے خیال میں تو کسان سے اتنی خطیر رقم وصول کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس وقت اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے بھرپور انداز میں سنبھالا دینے کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے زرعی مداخل کو سستا کر کے کسان کو آسودہ حال بنانے کیلئے زرعی مداخل کو جی ایس ٹی کی جزوی چھوٹ دینے، کھادوں پر معقول سبسڈیز دینے، ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کے نرخوں میں کمی کرنے اور زرعی آلات کی قیمتوں میں خاطر خواہ چھوٹ دینے کے علاوہ چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر زرعی قرضوں کی ادائیگی کرنے کے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ بے حد قابل تحسین ہیں۔ تاہم زرعی شعبے اور کسان تنظیموں کا مطالبہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کو سنبھالا دینے کیلئے ایک آدھ سال کیلئے یہ عبوری اقدام کافی نہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران اگر زرعی شعبے کی پیش رفت کو بہتر بناکر قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں کسان کی خوشحالی کیلئے طویل المدتی زرعی اصلاحات اور تمام سٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے قابل عمل و موثر زرعی پالیسی کے نفاذ کو ہنگامی بنیادوں پر یقینی بنانا ہو گا۔ ہمیںآئندہ مالی بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں میں شعبہ زراعت کو نظر انداز کرنے کی روش ترک کر کے اس شعبہ کو اولین ترجیحات میں اہمیت دینا ہو گی۔ ہمیں جی ڈی پی میں اس شعبہ کے حصہ کے مطابق ترقیاتی وسائل کی فراہمی ممکن بنانا ہو گی۔ ہمیں پیداواری لاگت کم کر کے بھارت، چین، ترکی، ملائیشیا، برازیل اور دیگر بیشتر ممالک کی طرح ہر سال زرعی مداخل پر باقاعدگی سے سبسڈی دینا ہو گی۔ ہمیں اپنے کسان کے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے بھارت جیسے ازلی دشمن کی زرعی اجناس کو درآمد کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔

ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے زرعی تحقیق کے اداروں کو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرنے کے علاوہ زرعی تحقیق کو سرکاری و نجی شعبے کے مابین اشتراک سے مزید مربوط بنانا ہو گا۔ ہمیں جدید زرعی ٹیکنالوجی کو کسان کے کھیت تک موثر انداز میں منتقل کرنے کیلئے ضلعی سطح پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بہتر بنانا ہو گا۔ ہمیں کثیر زرمبادلہ کمانے کیلئے آرگینک فارمنگ سمیت زرعی اجناس کی برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی اپنانے اور زرعی اجناس کی درآمدات کم کرنے کی پالیسی پر توجہ دینا ہو گی۔ ہمیں افغانستان سمیت زرعی اجناس کی بھارت کے ہاتھوں کھوئی ہوئی 40 فیصد بیرون ممالک منڈیوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور عالمی مارکیٹ میں اپنا بہت کھویا ہوا مقام بحال اور برقرار رکھنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں قومی غذائی تحفظ کو درپیش سنگین چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے آبادی اور غذائی وسائل کے مابین توازن کی موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی، ہمیں زرخیز زرعی رقبوں پر اندھا دھند ہائوسنگ و صنعتی تعمیرات کو روکنے کیلئے جلد از جلد قانون سازی کر کے انہیں بنجر و بے آباد رقبوں تک محدود کرنا ہو گا۔ ہمیں آبپاشی کیلئے پانی کی کمی کو دور کرنے، سیلابوں کی شدید تباہی سے بچنے، پن بجلی سے سستی بجلی پیدا کرنے، اور سمندر برد ہونے والے کثیر میٹھے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے بڑے چھوٹے ڈیمز کی جنگی بنیادوں پر تعمیر کو اورنج ٹرین جیسے منصوبہ سے زیادہ اہمیت دینا ہو گی۔ پانی کی تیزی سے واقع ہونے والی کمی دہشت گردی سے زیادہ ہولناک ہو سکتی ہے جس کیلئے ہمیں قومی واٹر پالیسی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی قومی پالیسی ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دینا ہو گی۔ ہمیں زیر زمین پانی کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی سطح کو سنبھالا دینے کیلئے بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے کثرت سے جھیلیں، تالاب اور منی ڈیمز بنانا ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں.