ترسیلات زر، کرنسی استحکام اور حج عمرہ بجٹ

162

بیرونی قرضوں کے بوجھ، سکڑتی ہوئی جی ڈی پی، کورونا کی وجہ سے معاشی تباہی جیسے چیلنجوں کے درمیان اچھی خبر یہ ہے کہ مارچ کے مہینے میں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے 2.7 بلین ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

حالیہ مہینے میں چونکہ رمضان بھی ہے اس لیے ان اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانی اپنی زکوٰۃ کی رقم رمضان میں بھیجتے ہیں دوسرا یہ کہ عید شاپنگ کے لیے بھی وہ اپنے اہل و عیال کو رمضان میں معمول سے زیادہ پیسے بھیجتے ہیں گویا اپریل میں یہ ہدف 3 بلین ڈالر عبور کر جائے گا جو کہ ایک تاریخی ریکارڈ ہو گا۔

پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 10 ماہ سے لگاتار سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ماہانہ 2 بلین ڈالر سے زیادہ رقومات وطن پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہماری معیشت کو بہت سہارا مل رہا ہے جس ملک میں ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہوں وہاں سالانہ 20 ارب ڈالر کا کیش انجیکشن ہماری معیشت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے اور امید ہے کہ حالیہ مالی سال میں ریکارڈ بریکنگ ترسیلات کا ہدف جون کے آخر تک 28 بلین ڈالر کو عبور کر جائے گا جو پہلے آج تک نہیں ہوا۔

جہاں ہم 24 بلین ڈالر کی وصولی پر اتنے خوش ہو رہے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا کے نتیجے میں آنے والی ہنگامی صورت حال کے باوجود ہمارے سمندر پار پاکستانیوں نے پہلے سے زیادہ پیسے بھیجے ہیں مگر آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کی گزشہ سال کی ترسیلات 80 بلین ڈالر سے زیادہ تھیں۔ ترسیلات زر میں دنیا میں انڈیا پہلے نمبر پر ہے۔

اب ذرا دیکھنا پڑے گا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے کون سے ملک سے سب سے زیادہ زرمبادلہ وطن بھیجا ہے۔ جولائی 2020ء سے مارچ 9021 تک سب سے زیادہ رقم سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے 5.7 بلین بھیجی گئی ہے۔ دوسرا نمبر متحدہ عرب امارات کا ہے جہاں سے 4.5 بلین موصول ہوئے اس کے بعد تیسرے اور چوتھے نمبر پر بالترتیب امریکہ 2.9 بلین ڈالر اور برطانیہ 1.9 بلین ڈالر شامل ہیں۔ اس سے ہماری معیشت کے لیے سعودی عرب اور امارات کی اہمیت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔

ان ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے کی ایک وجہ FATF قوانین بھی ہیں جس کی وجہ سے غیر قانونی ترسیلات یا ہنڈی کے ذریعہ پیسہ بھیجنے کے رجحان میں کمی آ رہی ہے۔ لوگ قانونی طور پر بینکنگ چینل کے ذریعے پیسہ بھیجتے ہیں جو ملک کی معاشی صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق مارچ میں فروری کی نسبت ترسیلات میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ گزشتہ سال اس مہینے کے مقابلے میں 26 فیصد زیادہ ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ 10 ماہ کے عرصے میں ڈالر کی قیمت 168 روپے سے کم ہو کر 152 تک آ چکی ہے تجزیہ نگار 150 روپے کی پیش گوئی کر رہے ہیں اس وقت پرائیویٹ کرنسی ایکسچینج والے ڈالر خریدنے سے اجتناب کر رہے ہیں کیونکہ قیمت گرنے سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کرونا کی وجہ سے فان ٹریول بند ہو چکا ہے۔ دوسری وجہ ترسیلات زر میں اضافے سے روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ کرونا کی پہلی لہر کے موقع پر جو معاشی افراتفری کا سماں تھا وہ تیسری لہر میں اتنا خوفناک نہیں رہا۔

ڈالر ذخیرہ کرنے کا رجحان تقریباً ختم ہو چکا ہے سب سے بڑافائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک کے مجموعی قرضوں میں 15 فیصد کمی آئی ہے۔ یہاں پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ہاؤسنگ سیکٹر میں ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی ہے جس کے بعد اس سیکٹر میں سرمایہ کاری پر منی ٹریل پوچھنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کے طاقتور طبقے نے بیرون ملک سے اپنا سرمایہ ایک دفعہ پھر وطن منتقل کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ اس رقم کو رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ میں لگا کر کالا دھن سفید کیا جا سکے۔ تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بے قدری عارضی ہے یہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی کیونکہ اس وقت بھی ہماری امپورٹ ہماری ایکسپورٹ سے زیادہ ہیں جو کہ معاشی طور پر ایک غیر صحت مند رجحان ہے اس سے معاشی ترقی میں سست رفتاری کی عکاسی ہوتی ہے۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بغیر کسی ظاہری وجہ کہ کسی ملک کی کرنسی مستحکم ہونا شروع ہو جائے تو یہ معاشی ترقی کی ضامن نہیں ہو سکتا ہے کہ سٹہ بازوں نے عارضی طور پر ایسی صورت حال پیدا کر دی ہو۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایکسپورٹر سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان کی برآمدات مہنگی ہونے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں فروخت میں کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ ایکسپورٹ آرڈر فائنل ہونے اور مال ڈلیور ہونے کے درمیانی عرصے میں اگر مقامی کرنسی ڈاؤن ہو گی تویہ ایکسپورٹر کا سارا منافع کھا جائے گی۔ اس Trend کی وجہ سے وہ آئندہ نئے سودے کرنے سے بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ ماہرین کی رائے میں حکومت کو ایکسپورٹر کو بچانے کا کوئی میکانزم بنانا چاہیے۔

یہاں پر ایک اور دلچسپ معاشی فیکٹرکا ذکر کرنا بہت اہم ہے۔ 2019ء میں حج اور عمرہ کرنے والے افراد میں پاکستان سر فہرست تھا ذرائع کے مطابق 21 لاکھ افراد نے عمرہ ادا کیا۔ اس مد میں پاکستان سے اوسطاً 6 ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ باہر چلا گیا۔

یہ رقم پاکستان کی سالانہ ٹیکس ریونیو (4500 ارب روپے) سے بھی زیادہ ہے گویا حکومت کو اتنا ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا جتنا پاکستانی شہری حج اور عمرہ پر خرچ کر دیتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جب سے عمرہ اور حج کرونا کی وجہ سے بند ہیں یہ پیسہ پاکستان سے باہر نہیں جا رہا جو معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب جس کی سالانہ حج عمرہ آمدنی 30 بلین ڈالر سے زیادہ تھی وہ خسارے میں جا رہا ہے۔ حج عمرہ والی یہ رقم اگر پاکستان میں فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی سسٹم ہو تو ملک میں بیروزگاری اور غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.