شام میں دھنسنے کا خطرہ

91

ترکی نے اپنی جنوبی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے ’پیس سرنگ‘ کے نام سے کرد جنگجوؤں کے خلاف جو فوجی آپریشن شروع کیا، اسے تین ہفتے مکمل ہو چکے ہیں، اس دوران چند جھڑپوں کے علاوہ کوئی محاذ آرائی نہیں ہوئی۔ ترکی کا 440 کلو میٹر طویل اور 30 چوڑے محفوظ علاقے کے قیام کا مطالبہ جو کہ ترکش فوج کے کنٹرول میں ہو، اس پر اصرار نہ کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اب وہ 120کلومیٹر طویل، 10کلو میٹر چوڑی راہداری پر متفق ہو گیا ہے، جس کی پٹرولنگ ترکش اور روسی فورسز مشترکہ طور پر کریں گی۔

ادھر امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا نے شامی تیل کے ذخائر محفوظ بنا دیئے۔ پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے کرد جنگجوؤں کو نکال کر شام کے جنوب میں منتقل کر کے امریکا نے ایک پتھر سے تین پرندے شکار کئے۔ ایک صدر اردوان سے شمال مشرقی شام میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی اجازت دینے سے متعلق ہے؛ دوسرا ترک فوج اور کردوں کے مابین تصادم روکنا ہے؛ تیسرا تیل کے ذخائر محفوظ کرنے کا ہے۔ اگر امریکا اس بات پر زور دیتا ہے کہ تیل کی آمدنی کردوں کو ملنی چاہیے، ترکی طاقت کے زور سے ایسا روکنے کی کوشش کرے گا؛ یوں آمدنی انقرہ کے بد ترین دشمن بشار الاسد کے پاس جائے گی جو کہ دونوں برے آپشنز میں قدرے کم بدتر آپشن ہے۔ اس پورے عمل میں ترکی نے کرد جنگجوؤں کو ایسے علاقے میں دھکیل دیا ہے، جہاں وہ مشترکہ امریکی روسی تحفظ اور تیل کی رقوم سے بہتر طور پر پھل پھول سکیں گے۔

وہیل مچھلی کی خوفناک حرکت نے دل دہلا دیے
ادھر کرد جنگجوؤں کی تنظیم شامی ڈیمو کریٹک فورسز اور شامی حکومت کے مابین ڈیل کیلئے جاری مذاکرات کے ابھی تک نتائج سامنے نہیں آئے، دوسری جانب یہ واضح بھی نہیں ہو سکا کہ امریکا کرد جنگجوؤں کو ہتھیاروں و دیگر فوجی ساز و سامان کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے کہ نہیں۔ اگر دونوں کے درمیان مذاکرات امریکی خواہش کے مطابق طے پا گئے تو امریکا کردوں کو اسلحے کی سپلائی کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر امریکی خواہشات کے برعکس ڈیل طے پاتی ہے، اس صورت میں واشنگٹن کے ممکنہ ردعمل کے بارے کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے رحمت اللعالمین ﷺ سکالرشپ پروگرام کا افتتاح کر دیا
کرد ایک ایسا مؤثر کارڈ تھا جسے واشنگٹن نے آئین سازی کے عمل کے دوران شامی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بند ی کر رکھی تھی، شاید یہ کارڈ پہلے کی طرح مؤثر نہیں رہا۔ ترکی کے فوجی آپریشن کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے شامی حکومت کا تسلط ترکش سرحد تک قائم ہو گیا ہے۔ پہلے سے مضبوط پوزیشن اور امریکی بے وفائی کے پیش نظر دمشق نے کرد جنگجوؤں کو شامی فوج جبکہ کردوں کی داخلی سکیورٹی سروس کو شامی پولیس میں ضم کرنے کی تجویز دی ہے۔ مگر شاید امریکی سپورٹ پر انحصار کرتے ہوئے شامی ڈیموکریٹک فورسز نے اسد حکومت کی تجویز مسترد کر دی ہے۔

فریضہ زکوٰۃ اور رمضان المبارک
وہ خود مختار مقامی انتظامیہ کا تاثر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، کردوں کے مقامی حکومت کے اس ماڈل کو امریکا اور روس دونوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ مقامی حکومت سمیت کردش اکائی کی کوئی بھی شکل ترکی کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر انقرہ اور دمشق کا مفاد مشترک ہے، کیونکہ دمشق شام کا وحدانی نظام برقرار رکھنا چاہتا ہے، تاہم ترکی کے لئے اس حوالے سے دمشق کے ساتھ مکمل تعاون کرنا آسان نہیں ہے۔

ادھر کردوں کی وفاداری واشنگٹن اور ماسکو کے مابین کچھ عرصہ منڈلاتی رہے گی۔ اس کا ٹھہراؤ شام میں روس کی مضبوط موجودگی اور اسرائیل کی سکیورٹی کے لئے خطے میں دوست کردش ریاست کے قیام کی امریکی ضرورت کے درمیان ہو سکتا ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک سرپرست کا انتخاب کردوں کے لئے ممکن نہیں، کیونکہ ایک کو بھی اپنے خلاف کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ کردش کاز کی سپورٹ کے حوالے سے ماسکو اور واشنگٹن بھی کسی طریقہ کار پر اتفاق کر سکتے ہیں۔ ترکش صحافی فہیم تسکین کے مطابق واشنگٹن اور ماسکو مل کر کام کر سکتے ہیں کہ نہیں، دونوں نے اس تجربے کے لئے شام کا انتخاب کیا ہے۔

طاقتور چینی مافیا
ترکی کو اس بدترین منظرنامے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی پہلی علامت منبج اور کوبانی سے انخلا کے بعد ترکش فورسز کو نظر انداز کر کے امریکی فورسزکا دونوں قصبوں کا کنٹرول روسی فوج کے حوالے کرنا ہے۔ اس مساوات میں تیسرے فریق ایران کو ابھی تک شامل نہیں کیا گیا۔ ایران اس خطے سے متعلق کہیں زیادہ باخبر ہے، مؤثر روسی موجودگی اور شامی حکومت کے آئینی کنٹرول کی وجہ سے وہ شام پر واشنگٹن کی پیچیدہ پالیسی پر غالب آ سکتا ہے۔ اس پیچیدہ منظرنامے میں انقرہ کو ایک جامع اور حقائق پر مبنی شامی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انقرہ ایسا کرنے میں اگر ناکام رہا تو شام کی پیچیدہ صورت حالات میں دھنستا چلا جائے گا۔

سنبھالے سے اب دل سنبھلتا نہیں
(بشکریہ: ڈیلی گلف نیوز)

تبصرے بند ہیں.