پاکستان اور روس کے بد لتے تعلقا ت

144

قا رئین کرام، آیئے کچھ دلچسپ قومی وا قعا ت کا جا ئزہ لینے کی غر ض سے ما ضی میں چلتے ہیں۔ تو یہ 1960کی دہا ئی کا آ غا ز ہے۔ روس کا پا کستان پہ الزا م ہے ،اور اس کے پاس ثبو ت مو جو د ہیں ۔ وہ یہ کہ پشا ور کے بڈھ پیر ہو ائی اڈے سے امر یکہ کا یوٹو فو جی ہو ائی جہا ز اڑا ن بھر تا ہے اور روس کے حساس علا قوں پہ پر واز کر تا ہوا وہا ں کی تصا ویر امر یکن ایجنسیوں کو منتقل کر تا ہے۔ روسی حکومت پاکستا ن کو وارننگ دیتی ہے اور وہا ں کے اس وقت کے سربراہ، خرو شیف پا کستان کے نقشے پہ پشا ور کے گرد سر خ دا ئرہ لگا دیتے ہیں۔ اور یو ں پا کستان کے روس کے سا تھ تعلقا ت لمبی مد ت کے لیئے انتہا ئی کشید ہ ہو جاتے ہیں۔ بہر حا ل اب وقت بہت بدل چکا ہے اور حا ل ہی میں روسی وز یرِ خا رجہ سر گئی لا وروف نے پا کستان کا خیر سگا لی دورہ کیا ہے۔عالمی سیاسی منظر نامے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے پیش نظر روسی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ملکی اور عالمی میڈیا میں بھی اس دورے کا خوب چرچا ہے۔ اب پاکستان کی توجہ مشرق کی طرف ہے۔ مبصرین کے مطابق مشرق کی طرف دیکھنے کا عمل پاکستان کے لیے مثبت ہے۔ پاکستان، ایران، روس، چین، ترکی اور وسطی ایشیاء کے ممالک مل کر ایک نیا سیاسی بلاک قائم کرسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب روس نے پاکستان سے تعلقات کو نئی شکل دینے او ران میں وسعت لانے کی بھرپور کوششیں عملی طور پر شروع کردی ہیں۔ یہ پیش رفت پاکستان اور جنوبی ایشیاء دونوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں نمایاں تزویراتی حرکیات اور پالیسی کی تبدیلی اُن تصورات کو تبدیل کرسکتی ہے جنہوںنے روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان کو روس مخالف کیمپ میں لا کھڑا کیا تھا۔ ماسکو نے واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ ماضی کو بھلا کر جنوبی ایشیاء سمیت پورے ایشیا میں طاقت کا توازن قائم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور روسی وزیرخارجہ کا حالیہ دورہ ان سارے خیالات پر مہر تصدیق ثبت کرتا نظر آتاہے۔ بدلتے علاقائی حالات نے دونوں ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا موقع فراہم کیاہے۔ اسی تناظر میں روس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینی شروع کردی ہے۔ سیکورٹی سے متعلق روس، چین، پاکستان کے ملتے جلتے مفادات اور افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر نے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے۔ بھارت روس کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے۔ ماسکو کی پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس کی حقیقت پسندی اور عمل پسندی کا بھی اظہار ہوتاہے۔ وہ پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں استحکام لانا چاہتا ہے، کابل کا استحکام وسطی ایشیا کے امن کا پیش خیمہ ہوگا۔ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی کے مسائل پورے خطے میں روسی مال کی فروخت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے روس چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے بھرپور مستفید ہو، ایسی صورت میں روس کے لیے پورے خطے میں معاشی روابط بہتر بنانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ماسکو داعش کو افغانستان میں قابو کرنے کے لیے طالبان کو ضروری سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں پر امن لانے میں پاکستان کے کردار کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ بھارت، امریکہ دفاعی تعلقات اور بھارت، روس تعلقات میں سرد مہری نے پاکستان اور روس کے لیے تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ روس نے پاکستان کے ساتھ پہلی دفعہ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ اگرچہ یہ بھارت ، روس دفاعی تعلقات جتنی وسیع نہیں تھیں تاہم یہ مشقیں اس وقت ہوئیں جب پاکستان او ربھارت کے بیچ اوڑی حملے کے بعد تناؤ چل رہا تھا۔ روس نے پاکستان کو چار ہیلی کاپٹر ز بھی فراہم کیے ہیں۔ یہ چیزیں دکھاتی ہیں کہ روس جہاں تاریخی طور پر بھارت سے دور ہورہا ہے وہیں پاکستان کے قریب ہورہا ہے۔سی پیک کی صورت میں پاکستان کو جو معاشی فوائد اور مواقع ملے ہیں، پاکستان ان میں روس کو شامل کرکے تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے۔ سی پیک علاقائی اور عالمی معاشی سرگرمیوں کی وسعت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک ’’لینڈ لاکڈ‘‘ ملکوں کو بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی بھی دے گا جس کی روس نے ایک عرصے سے خواہش رکھی ہے۔ گرم پانیوں تک رسائی کے علاوہ روس پاکستان کو ہتھیار بھی فروخت کرسکتا ہے۔ پابندیوں میں جکڑا ہوا اور دفاعی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت میں سخت مقابلے کی وجہ سے روس نئی منڈیاں تلاش کر رہا ہے۔ افغانستان میں دیرپا استحکام لانے میں روس کو

پاکستان کی ضرورت ہوگی جبکہ دوسری طرف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی داخلی سیکورٹی کا ضامن ہے۔ مزید برآں روس چین کے قریب ہورہا ہے، پاک، روس تعلقات میں دو طرفہ گرم جوشی اس تبدیلی کی بڑی مثال ہے۔ پاکستان کے لیے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کا عالمی سیاست اور امریکہ کو ایک واضح پیغام ہوگا کہ ایک نئی صف بندی ہورہی ہے۔ سیکورٹی، توانائی اور معاشی تعلقات میں بہتری یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سردجنگ کی سردمہری ختم ہوگئی ہے۔ علاقائی امن اور خوش حالی کو وسعت دینے کے لیے پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں لگاتار تبدیلی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ علا وہ از یںروسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جی ایچ کیو راولپنڈی کا دورہ کیا اور آرمی چیف جنرل قمر

جاوید باجوہ سے ملاقا ت کی جس میںباہمی دلچسپی، دفاعی و سیکورٹی تعاون بڑھانے، علاقائی سیکورٹی، بالخصوص افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ روسی وزیرخارجہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ انہوںنے افغان مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کو بھی سراہا۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، پاکستان روس کے ساتھ فوجی تعاون کو وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے لیے تمام اقدامات کی حمایت کرتا ہے، افغانستان میں دیرپا امن و استحکام سے خطے کو فائدہ ہو گا۔ آرمی چیف نے خطے کی اسٹریٹجک صورت حال میں تبدیلی کا واضح اشارہ دیا ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ بھارت اب روس کو چھوڑ کر امریکا دائرہ اثر میں داخل ہو رہا ہے۔ ایسی حالت میں روس کے لیے بھارت کے بحری علاقے میں قدم جمانا لازم ہو جائے گا اور ایسا ہوا تو نئی دہلی کی پریشانی بڑھے گی۔ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے ماسکو جو کچھ کر رہا ہے، اس سے اتنا تو واضح ہے کہ نئی دہلی میں پریشانی ہے۔ تذویری سطح پر رونماہونے والی یہ تبدیلیاں روس اور بھارت کے تعلقات کو بھی نئی، حقیقت پسندانہ سوچ سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کو امریکا سے تعلقات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو روس کے تحفظات دور کرے۔ پاکستان کا جنوبی ایشیا میں کردار اپنے دیرینہ دوست چین اور امریکا سے تعلقات کی بنیاد پر ہے۔ اب وہ روس سے بھی قربت اختیار کر رہا ہے۔ چین پاک راہداری منصوبے نے پاکستان کو ایک مضبوط معاشی، سفارتی اور تذویری بنیاد فراہم کی ہے۔ چین اور روس کی طرف غیر معمولی جھکاؤ کے باعث پاک امریکا تعلقات کے شیشے میں بھی بال آ رہا ہے۔ روس اگر چاہے تو پاکستان کو عسکری طور پر مضبوط کر کے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھ سکتا ہے۔ خطے میں بلاشبہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں روس اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں تنازع کشمیر کا پُرامن حل نکل آتا ہے تو یہ عمل جنوبی ایشیا میں قیام امن کی راہ ہموار کردے گا۔ پاکستان امن کا داعی ہے یقینا روس پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا تاکہ یہ خطے امن و سکون کا گہوارہ اور دنیا کے لیے ترقی کا، خوش حالی کا استعارہ بن سکے۔

تبصرے بند ہیں.