مذاکرات کے لئے بہترین وقت

35

ایک وقت تھا جب پی ٹی آئی مذاکرات سے انکاری تھی یعنی مذاکرات تو کرنا چاہتی تھی لیکن وہ حکومت سے نہیں صرف طاقتور لوگوں سے مذاکرات چاہتی تھی۔ لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کے لئے آمادہ ہے لیکن حکومت سمجھ رہی ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کے اپنے سارے کارڈ آزما چکی، بلکہ بعض وزراء کے بیانات سے تو رعونت صاف جھلک رہی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اب کمزور پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ ان کے خیال میں جیسے اپنے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں عمران خان ان کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیتے تھے تو اب حکومت کو بھی ویسا ہی ردِ عمل دینا چاہئے۔ جیسے وہ جیلوں میں رہے اب پی ٹی آئی کے لوگوں کو بھی ویسے ہی جیلیں جھیلنی چاہئیں، جب کہ میری ناقص رائے میں یہ مذاکرات کے لئے بہترین وقت ہے ، کوئی گراس روٹ لیول پر آ کر دیکھے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ اداروں کے حوالوں سے لوگ کس طرح باتیں کر رہے ہیںاور یہ بات ادارے خود بھی جانتے ہیں کہ ان پر عوام کے اعتماد میں کمی آ رہی ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور اگر اس ملک پر آنچ آئے گی تو کسی کا بھی وقار قائم نہیں رہ سکے گا۔ پی ٹی آئی اگر واقعی ہی معاملات میں بہتری لانے کی خواہاں ہے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتی ہے تو حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی اپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ بلیم گیم کی سیاست چھوڑ کر ملک میں سیاسی استحکام لایا جا سکتا ہے، جس کے بغیر عوام کی حالت میں بہتری نہیں آ سکتی۔ سیاسی تناؤ کم اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے فریقین کو افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے۔ پی ٹی آئی اور حکومت ہی باہمی طور پر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال سکتی ہیں۔

جس طرح کے حالات اس وقت ملک میں ہیں ان کا تقاضا ہے کہ افواہوں اور قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ اس قسم کی افواہوں اور قیاس آرائیوں سے عوام اور اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے جس سے عوام اور اداروں میں خلیج کے مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ایسے حالات میں سب کو انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ہر بات ناپ تول کر کرنی چاہئے۔ ملک کی سیاسی قیادت چاہے وہ اپوزیشن ہو یا حکومت انہیں اس معاملے کو حل کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور اداروں کے تقدس کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے بحران جتنا طول پکڑتا جائے گا معاملات اتنے ہی خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ صوبوں کے اربابِ اختیار ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں۔ مسئلہ تو حقیقی مینڈیٹ کا ہے اور اصولی طور پر اسے مانا بھی جایا جانا چاہئے تھا۔ایسے ہی1970ء میں یحییٰ خان کا دورِ حکومت تھا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان قومی اسمبلی کی 169 میں سے 167 سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے کل 313 کے ایوان میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بال کر شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بظاہر دو وجوہات آڑے آ رہی تھیں، ایک تو جنرل یحییٰ یہ سازش کر رہے تھے کہ ان کو صدر برقرار رکھا جائے اور دوسرا مغربی پاکستان سے اکثریت حاصل ہونے کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں غیر معمولی تاخیر پر مجیب نے عام ہڑتال کی کال دے دی۔ یہ ہڑتال اتنی مکمل اور کامیاب تھی کہ مشرقی پاکستان میں حکومت کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ان حالات میں گورنر احسن اور جنرل یعقوب علی خان نے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل یعقوب کی جگہ جنرل ٹکا خان کو کمان سونپ دی گئی۔
آنے والا ہر دن ہنگاموں کی نذر ہونے لگا، لاء اینڈ آرڈر ختم ہو گیا۔بنگالیوں نے 300 بہاریوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر ذبح کر ڈالا۔یحییٰ خان کے احکامات پر 25 مارچ کی رات سے فوجی آپریشن شروع ہو گیا، بہت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ بھارت نے اپنا کام شروع کر دیا اور 26 مارچ کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ سب سے بڑا المیہ ہے کہ 25 مارچ کو شروع ہونے والے آپریشن کے بعد کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ حالات کو سدھارا جا سکے۔ یحییٰ خان اپنے مشاغل میں مصروف پاکستانی سیاست سے کھیلتے رہے اور قوم کا مستقبل تاریک کرتے رہے۔ اد ھر انڈیا لڑائی کی تیاری کرتا رہا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان سے لوگوں کو ٹریننگ دے کر مکتی باہنی کھڑی کی اور اسے ایک دشمن قوت کے طور پر پاک فوج کے مقابل لا کھڑا کر دیا، 22 نومبر کو انڈین افواج حرکت میں آ گئیں۔ پھر اگلی حقیقت بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہوا۔ آج ایک بار پھر مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے اور دونوں جماعتوں کے قائدین سے لے کر عام اراکین کی سطح تک ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے اب یہ تاثر پکڑتا جا رہا ہے کہ تصادم ہونے والا ہے۔ 26 نومبر کے سانحے کے بعد وزیرِ اعظم نے کابینہ کا اجلاس بلا کر سپہ سالار کا شکریہ ادا کر دیا، میری ذاتی رائے میں اس طرح کے بیان سے اجتناب برتا جایا جانا چاہئے تھا۔ یہ سب قومی سلامتی کے لئے بہت خطرناک ہے ۔لگتا ہے ہم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، ایک راستہ انتشار اور انارکی کی طرف جاتا ہے اور دوسرا بہتری کی طرف جاتا ہے، ایسے مقام پر قوم کی قیادت کو انتہائی دور اندیشی، معاملہ فہمی، تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جہاں ایثار کی ضرورت ہو وہاں انا کو آڑے نہیں آنا چاہئے۔ دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل موجود نہ ہو۔ پاکستان میں جو بحران جاری ہے اس کا بھی کہیں نہ کہیں حل موجود ہو گا، ضرورت صرف ایثار و قربانی اور معاملہ فہمی کی ہے۔ سیاسی قیادت کا یہ امتحان ہے کہ وہ اس بحران کو کیسے حل کرتی ہے، اس کو ناقابلِ حل نہیں بنانا چاہئے۔ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ کاش ہم اب ہی کوئی سبق لے لیں۔

تبصرے بند ہیں.