شکریہ وزیر اعظم شہباز شریف

40

سال 2024 اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے تو کیوں نا وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف صاحب کی وفاقی حکومت کی گزشتہ چند ماہ کی کارکردگی کا احاطہ کیا جائے۔ اس میں کوئی شک اور دوسری رائے نہیں کہ شہباز شریف صاحب نے فروری 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں انتہائی نامساعد معاشی حالات میں ایک مخلوط حکومت سنبھالی۔ ایک ایسی حکومت جس کو معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ درپیش تھا۔ ایک ایسی حکومت جس کو بیک وقت اندرونی و بیرونی سکیورٹی مسائل کا سامنا تھا اور ملک کے کئی علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کی حالت مخدوش تھی۔ ان حالات میں حکومت سنبھالنا اور معیشت کو آہستہ آہستہ بہتری کی طرف گامزن کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی مدد سے شہباز حکومت نے نیک نیتی کے ساتھ کام شروع کیا تو پھر گزرتے دنوں کے ساتھ حالات بہتر ہوتے نظر آئے۔ ان چند ماہ میں وفاقی حکومت کے لیے گئے بروقت اقدامات کی وجہ سے وفاقی اداروں کی کارکردگی میں بہت بہتری دکھائی دی۔ کاروباری حلقوں کا اعتماد بحال ہوا اور روپے کی قدر مستحکم رہی۔ ملک کی سٹاک ایکسچینج جو فروری میں قریب 42000 پوائنٹس پہ تھی وہ بڑھ کر ریکارڈ سطح یعنی 110000 پوائنٹس پہ پہنچ گئی ہے اور اس کا تجارتی حجم 18 ارب ڈالر سے بڑھ کر 46 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ اس وقت پاکستان سٹاک ایکسچینج 2024 میں دنیا کی سب سے بہترین اور کامیاب سٹاک ایکسچینج بن چکی ہے۔ اسی طرح شرح سود میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور نتیجتاً ملکی و غیر ملکی کاروباری حلقوں کا جکومتی معاشی پالیسی پہ اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں پچھلی ایک سہ ماہی میں پانچ فیصد اور ایک ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں درآمدات میں 7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نکل کر نفع کی جانب گامزن ہے اور نومبر کے مہینے میں 729 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا جو کہ فروری 2015 کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے بھی ترسیلات زر بھجوانے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا اور ان میں اوسطاً 29 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ افراط زر کی شرح 4.8 پہ آ گئی ہے جو پچھلے سات سال میں سب سے کم سطح ہے۔ ملکی خزانہ جو تھوڑا عرصہ پہلے تک ڈیفالٹ کی حدوں کو چھو رہا تھا آج اس کے ذخائر بڑھ کر 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر رہے ہیں۔ جہاں شہباز حکومت نے کچھ بیمار اداروں اور صنعتوں کا حل تلاش کرنا شروع کیا وہیں وہ ایک ظلم جو کئی سال سے ملک اورقوم کے ساتھ ہو رہا تھا، اس کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔ آئی پی پیز جو ملکی معیشت کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو رہے تھے اور ہر سال کپیسیٹی چارجز کی مد میں ہزاروں ارب روپے انہیں دینا پڑ رہے تھے، حکومت نے ان میں سے کئی کے ساتھ مذاکرات کر کے کپیسٹی چارجز ختم کرا دیئے ہیں اور کئی معاہدے منسوخ کر دیئے ہیں۔ اب اس مد میں ملکی معیشت کو قریب 350 ارب روپے کی بچت ہو گی، باقی کمپنیوں سے بھی بات چیت جاری ہے اور جلد مزید اچھی خبر ملے گی۔ موجودہ دور میں دنیا سمٹ کر اک عالمی اکائی کی شکل اختیار کر چکی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہاں وہی ممالک کامیاب ہیں جو بقیہ دنیا کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور کندھے سے کندھا ملائے ساتھ چلتے ہیں۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے شہباز شریف حکومت نے نا صرف دوست ممالک سے نئے اور مضبوط روابط کی بنیاد رکھی بلکہ انہیں پاکستان کو قرض کے بجائے اس کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری پہ آمادہ بھی کیا۔ سی پیک کا اگلا یعنی دوسرا فیز بھی شروع ہوا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران تمام قریبی دوست ممالک سے روابط خراب کر کے اکیلا رہ جانیوالا پاکستان، وزیر اعظم شہباز شریف کی انتھک محنت اور دور اندیشی کی بدولت پھر اپنے دیرینہ دوستوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ جس کا ثبوت مختلف غیر ملکی سربراہان مملکت کا یہاں آنا یا وزیر اعظم کو ان ممالک کے دوروں کی دعوت دینا اور پھر شنگھائی تعاون تنظیم جیسی اہم تنظیم کی سربراہی کانفرنس کا اسلام آباد میں کامیاب انعقاد بھی ہے کیونکہ اس میں دو بڑی عالمی طاقتوں روس چین کے وزرائے اعظم سمیت قریب ایک درجن غیر ملکی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ افواج پاکستان ایک طرف تو ملکی سالمیت کی نگہبان ہیں لیکن دوسری طرف ان کا ملک کے اہم اداروں اور فیصلوں میں اپنا ایک کردار بھی ہے۔ اب حکومت اور افواج کی مشترکہ کاوش سے بیرونی سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنے اور کامیاب بنانے کے لیے سی آئی ایف سی کے قیام اور فعال ہونے سے فوج بھی حکومت کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو مختلف شعبوں میں ان کی مکمل حمایت حاصل اور دونوں کے ایک صفحہ پہ ہونے کے سبب نا صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے بلکہ ان کی پاکستانی معیشت میں براہ راست سرمایہ کاری بھی بڑھی ہے۔ جس کی واضح مثال پاکستان کی سٹاک ایکسچینج ہے۔ سی پیک کے دوسرے فیز کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور امید ہے کہ آنے والے کچھ مہینوں میں اس کی رفتار میں تیزی آئیگی۔ اسی طرح سعودی عرب، قطر، یو اے ای، آذر بائیجان کی جانب سے سرمایہ کاری پہ بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔ سو یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ ملک اور قوم کے اچھے دنوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ان شاء اللہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں ہی ایک سیاسی گروہ ایسا بھی ہے جو روز اول سے ہی مرکز میں قائم حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرتا آ رہا ہے۔ یہ انتشاری ٹولہ چونکہ ایک صوبے میں حکمران ہے لہٰذا یہ ہر دس پندرہ دن کے بعد اور خصوصاً جب کوئی غیر ملکی سربراہ مملکت اسلام باد آ رہا ہو یا شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی اجلاس جیسا اہم موقع ہو، عین اس وقت تمام تر صوبائی وسائل کے ساتھ یہ گروہ وفاقی دارالحکومت پہ چڑھ دوڑتا ہے۔ یقینا یہ سب تماشا اب تک بہتر ہوتی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ لیکن آفریں ہے شہباز شریف صاحب پہ جنہوں نے تمام تر اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود ہمت ہاری اور نہ ہی انتشاری گروہ کی منفی سرگرمیوں کو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے دیا۔ شہباز شریف کی ٹیم میں شامل کچھ حضرات بتاتے ہیں کہ وہ ہر روز کم و بیش اوسطاً اٹھارہ گھنٹے کام کرتے اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی کابینہ کے ارکان بھی اتنے ہی فعال رہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ وزیر اعظم کی انتھک محنت رنگ لا رہی ہے اور تمام غیر ملکی ذرائع ابلاغ و معاشی ادارے پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت بتا رہے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ اگر معاشی ترقی کا پہیہ بغیر رکاوٹ اسی طرح چلتا رہا تو 2030-35 تک پاکستان دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شمار ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ بقول شاعر: یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.