کل ایک دوست نے مجھ سے پوچھا ’’آپ نے اپنے پچھلے ایک دو کالموں میں ان ڈائریکٹ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران پر تنقید کی ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ میں نے عرض کیا’’میں بنیادی طور پر تو ایک شاعر ادیب و اْستاد آدمی ہوں لیکن اس کے علاوہ میرے اندر ایک کرائم رپورٹر اور ایک سرکاری سیاستدان (ایم این اے ، ایم پی اے ) بھی چْھپا ہوا ہے جو کبھی کبھی مجھے بغیر بتائے باہر آ جاتا ہے، چنانچہ میرے اندر چْھپے یہ کردار کسی افسر وغیرہ پر تنقید کرنے کے لئے اْس کی کسی خامی یا کسی خاص وجہ کا ہونا ضروری نہیں سمجھتے ،ہم بغیر کسی وجہ کے بھی تنقید کر سکتے ہیں جو اس معاشرے کا عمومی چلن بلکہ’’چال چلن‘‘ ہے، کوئی شخص اگر ہمیں ویسے ہی اچھا نہیں لگتا ہم اپنے اندر کا کیچڑ نکال کر اْس پر اْچھال دیتے ہیں ، ایک زمانے میں لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی وجہ کے اچھے لگتے تھے اب بغیر کسی وجہ کے زہر لگتے ہیں ، کل مجھ سے کسی نے کہا’’فلاں شخص مجھے زہر لگتاہے‘‘ میں نے وجہ پوچھی وہ کہنے لگا’’بس اْنج ای زہر لگ دا اے بجو جئیا‘‘ ، مگر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران مجھے ایسے ہی زہر نہیں لگتا ، اس کی بیشمار وجوہات ہیں ، وہ جب سے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور بنا ہے ابھی تک ایک کال اْس نے مجھے نہیں کی ، میں حیران ہوں اْسے یہ جْرأت کیسے ہوئی ایسے صحافی یا کالم نویس سے اب تک رابطہ نہ کرے جسے ’’ماہر امراض پولیسیات‘‘ سمجھا جاتا ہے اور لاہور میں تعینات ہونے والے اکثر ڈی آئی جی آپریشنز چارج بعد میں لیتے ہیں پہلے اْسے سلام کرنے جاتے ہیں ، چلیں بندہ اپنی بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے سلام کرنے نہ بھی حاضر ہو سکے کم از کم دن میں ایک دو بار کال کر کے تو پوچھ سکتا ہے کہ ہور سْناؤ سجنو کی حال چال اے ، کوئی ناجائز ایف آئی آرتے درج نئیں کروانی ؟‘‘ ، دوسری وجہ اْس کے زہر لگنے کی یہ ہے اْسے پنجاب کے سیاسی یا اصلی حکمرانوں نے میری مرضی کے بغیر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگا دیا ہے، مجھ سے اس سلسلے میں مشاورت تک نہیں کی گئی ، چنانچہ اب یہ تنقید کرنا میرا حق بنتا ہے کہ وہ ایک جونئیر پولیس افسر ہے جسے اْس کی اوقات سے زیادہ نواز یا شہباز کر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگا دیا گیا ہے، بھئی حکمرانو اگر تم نے کسی ایس ایس پی کو ہی ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگانا تھا تو میری مرضی کا لگا دیتے ، یا کم از کم مجھ سے پوچھ ہی لیتے ، سیاسی و اصلی حکمرانوں کو چھوڑیں خود فیصل کامران نے بھی مجھ سے یہ پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ سر پنجاب کے سیاسی و اصلی حکمران مجھے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگانا چاہتے ہیں آپ کی اجازت ہو تو میں لگ جاؤں ؟ ‘‘ ، وہ اگر اس ’’اعلیٰ ظرفی‘‘کامظاہرہ کرتا میں نے اس کے بدلے میں ساری زندگی اْس کا تابعدار بلکہ غلام بن کر رہتا جس طرح ہمارے اکثر سول و پولیس افسران سیاسی و اصلی حکمرانوں کے غلام بن کر رہتے ہیں ، فیصل کامران پر تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے وہ بہت کم ہنستا ہے، بلکہ ہنستا ہی نہیں ہے، مجھے چونکہ پولیس کے صرف ’’مسخرے کردار‘‘ اچھے لگتے ہیں اسی لئے مجھے یہ زہر لگتا ہے، ایک اور بڑی وجہ سے بھی یہ مجھے بہت زہر ہے، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور بننے کے بعد اْس نے ایک بار بھی مجھ سے نہیں پوچھا’’بٹ صاحب آپ نے کسی کرپٹ کسی بدمعاش کسی لْچے لفنگے انسپکٹر یا سب انسپکٹر کو ایس ایچ او لگوانا ہے تو حکم کریں ؟ میں نے اس حوالے سے اْسے بس دو چار حکم ہی دینے تھے، میں نے کون سا ہر تھانے میں اپنا ایس ایچ او لگوا لینا تھا ، ایک نامور صحافی جسے بیشمار کرائم رپورٹر اپنا گرو یا اْستاد مانتے ہیں اْس کا اتنا تو حق بنتا ہے وہ اپنی مرضی کے دو چار ایس ایچ او لگوا لے جو اْس کے گھر کا کچن چلائیں یا اْس کی زیرنگرانی چلنے والے دو چار جوئے خانوں یا قحبہ خانوں کے معاملات دیکھتے رہیں ، یہاں تو تیسرے درجے کا ایک کرائم رپورٹر کئی کئی ایس ایچ او لگواتا رہا ہے، پریس کلب کے صدر کا الگ ایک کوٹہ ہوتا تھا اس نامراد ڈی آئی جی آپریشنز نے سارے کوٹے بلکہ سارے کوٹھے تک ختم کر دئیے ہیں ، چلیں وہ ایس ایچ اوز میری مرضی سے نہ بھی لگائے کم از کم اپنی مرضی سے کسی کو ایس ایچ او لگانے سے پہلے ہلکا سا مجھے بتا ہی دیا کرے تاکہ میں قبل از وقت اْس ایس ایچ او کو بتا دْوں کہ ’’میں تمہیں ایس ایچ او لگوا رہا ہوں آج یا کل تمہارے آرڈرز ہو جائیں گے جس کے بعد فوری طور پر تم نے فروٹ کے دو چار اور مٹھائی کے تقریباً چار پانچ ٹوکرے مع لیٹیسٹ ماڈل کا آئی فون ڈبہ پیک لے کر میرے گھر پہنچ جانا ہے‘‘ اور ہاں یاد آیا ڈی آئی جی آپریشنز کے زہر لگنے کی اصل وجہ بتانا تو میں بھول ہی گیا ، سْنا ہے وہ کرپٹ نہیں ہے، میں روز دعا کرتا ہوں اْس کی کرپشن کا کوئی نہ کوئی قصہ میرے ہاتھ لگ جائے تاکہ بلیک میل کر کے میں اْسے قابو کر سکوں ، یہ جو کرپٹ نہیں ہوتے مجھے بہت زہر لگتے ہیں کیونکہ جتنا آسان کرپٹ افسروں کو قابو کرنا ہوتا ہے ایماندار افسروں کو قابو کرنا اْتنا ہی مشکل ہوتا ہے، فیصل کامران کا محنتی ہونا بھی مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا ، سْنا ہے یہ پاگل ساری ساری رات سڑکوں پر غیر ضروری طور پر ایس ایچ اوز ، ڈی ایس پیز اور ڈویژنل ایس پیز کی نگرانی کرتا رہتا ہے کہ وہ صحیح طرح اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں یا نہیں ؟ خود آرام کرتا ہے نہ کسی کو کرنے دیتا ہے، اْس کے ماتحت افسران دعائیں کرتے ہیں اللہ کرے وہ اپنی فیملی کو لاہور لے آئے تاکہ کچھ وقت وہ اپنی فیملی کو دے اور ہم اس دوران اْس کی کڑی نگرانی سے محفوظ رہ کر انھی ڈال سکیں ، کل اپنے سالے کے ذریعے ناجائز کمائی کرنے والا ایک سابقہ ایس پی صدر ، جو حال ہی میں کوئی کورس وغیرہ کر کے بیرون ملک سے واپس آیا ہے کسی کو یہ بتا رہا تھا ’’میں نے اْوپر سے اپنے ایس پی سٹی لاہور لگنے کے آرڈرز کروا لئے تھے، مگر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے رکاوٹ ڈال دی جس کے بعد مجھے کْھڈے لائن لگا دیا گیا ، کتنی زیادتی ہے؟ بندہ فیصل کامران سے پوچھے اپنے جیسے ایماندار افسروں کا تم نے اچار ڈالنا ہے؟ فیصل کامران کی خوبصورتی بھی مجھے ذرا نہیں لْبھاتی ، کسی ڈی آئی جی کو اتنا خوبصورت اور قدآور نہیں ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو بْرا لگنے لگے ، اب آخری کرتْوت بھی اْس کی سْن لیں ، اپنے دفتر کا سارا عملہ اْس نے تبدیل کر دیا ہے، ایک دو بددیانت اگر رہ جاتے کم از کم دفتر کا چائے پانی تو چلتا رہتا ، عجیب پولیس افسر ہے، دوسرے غم کیا کم تھے کہ ایک یہ روگ بھی اْس نے ہمیں لگا دیا ہے کہ کب لاہور سے اْس کی ٹرانسفر ہوگی اور دوبارہ ہماری موجیں لگیں گی ؟
تبصرے بند ہیں.